کیا فلسطینی مملکت کا تصور ختم ہو گیا؟

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اسرائیل اور فلسطین کے تعلق سے کانفرنس ہوئی ہے جس میں مقبوضہ علاقے میں تعمیرات کی تنقید کی گئی ہے

امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی افتتاحی تقریر میں کہا ہے کہ وہ اب صرف امریکہ کے مفاد کے لیے کام کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی توجہ امریکہ کی سرحدوں کو محفوظ کرنے پر مرکوز ہو گی اور دوسرے دوست ممالک سے بھی وہ یہ توقع کریں گے کہ وہ خود اپنی سرحدوں کا خیال رکھیں۔

ان کی تقریر میں ساری توجہ امریکہ کے مفاد پر مرکوز تھیں۔ انھوں نے وہی باتیں دہرائیں جو وہ انتخابی مہم کے دوران کہتے رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی پالیسی میں یقین رکھتے ہیں جس میں کوئی دوسرا ملک تبھی ان کے لیے اہم ہوگا جب اس کے تعلقات سے امریکہ کو براہ راست کوئی فائدہ ہو۔ اس نئی پالیسی سے دنیا کے بہت سے خطوں بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اور یورپی اتحادیوں میں خاصی بے چینی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے پر اسرائیل کی سخت گیر جماعتیں اور رہنما کافی خوش ہیں۔ ٹرمپ کے اس بیان سے اسرائیل کی امیدیں اور بھی بڑھ گئی ہیں کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر سکتے ہیں۔ انھیں اسرائیل کا ایک قریبی دوست تصور کیا جاتا ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کا معاملہ ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہے

اسرائیل کے وزیر تعلیم نے ٹرمپ کی کامیابی پر کہا تھا کہ ان کے آنے سے ایک فلسطینی مملکت کے قیام کے لیے بین الاقوامی برادری کا سیاسی عزم ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جیت نے اسرائیل کو ایک بہترین موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ ‘دو مملکت‘ کے تصورسے فوراً منحرف ہو جائے۔ بقول ان کے فلسطینی مملکت کے قیام کے تصور کا دور اب ختم ہو گیا۔

سابق صدر براک اوباما کی مشرقِ وسطیٰ اور خلیج ممالک میں واحد کامیابی یہ رہی کہ انھوں نے ہر قسم کے دباؤ اور حالات کے باوجود ایران میں وہ صورت حال نہیں پیدا کی جو انھوں نے شام اور لیبیا میں کی۔ ان کے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں سب سے بڑی ناکامی فلسطین- اسرائیل تنازع رہی۔

obama trump
براک اوباما کی حکومت میں امریکی انتظامیہ کوئی جامع مذاکرات تک شروع کرانے کی متحمل نہ ہو سکی ۔
صدر ٹرمپ بنیادی طور پر ایک بزنس میں ہیں۔ کسی بھی پہلو کا جائزہ وہ نفع اور نقصان یا نتیجے کے نقطۂ نظر سے کرتے ہیں۔ اگر انھیں روس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہو گا تو وہ روس سے بھی اچھے تعلقات رکھنا چاہیں گے اور اس میں انھیں کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں ہے۔

اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ گذشتہ دہائیوں کی بات چیت سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دو مملکت کے سوال پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے تو وہ ایک مملکت کے تصور کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اگر انھوں نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا تو یہ ایک مملکت کے قیام کی حققیت کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ ان کے اس فیصلے سے بین الاقوامی برادری کا عزم ٹوٹے گا یا نہیں اس کے بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے ایگزیکٹو دستخط میں دنیا کو کئی پیغام دے دیے

امریکہ اب عراق شام، لیبیا اور یمن کے تنازعات سے فوری طور پر الگ ہونا چاہے گا۔ ابھی یہ واضح نیں کہ سعودی عرب، کویت اور خطے کے دوسرے اتحادیوں سے نئی انتظامیہ کے تعلقات کس طرح کے ہوں گے؟ لیکن ٹرمپ کے آنے سے خطے کے حکمرانوں میں زبردست بے چینی ہے۔ یہ پورا خطہ اندرونی بے چینیوں کے ایک بند آتش فشاں پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس خطے میں امریکہ کی عدم دلچسپی پورے خطے میں عدم استحکام کا موجب ہو سکتی ہے۔

آنے والے دنوں کی ممکنہ صورت حال کے پیش نظر ہی فرانس نے گذشتہ ہفتے فلسطین اور اسرائیل کے سوال پر 70 ملکوں کی کانفرنس بلائی تھی۔ پیرس کانفرنس نے امریکہ اور اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر کوئی قدم نہ اٹھا ئیں۔

بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ مذاکرات میں تین دہائیاں ضائع کی گئیں۔ فلسطینی انتظامیہ اوراسرائیلی حکومتوں کے درمیان اختلافات کبھی ختم نہیں ہوئے، حماس نے اسرائیل کے سویلین ٹھکانوں پر راکٹ داغنے جاری رکھے اور اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھی۔

اب اس مرحلے پر فلسطین کے پاس ایسی کوئی طاقت یا حمایت نہیں ہے جس کے زور پر وہ اسرائیل سے گفت و شنید کر سکے۔ فلسطینیوں اور بین اقوامی برادری نے بظاہر وہ موقع اب کھو دیا ہے۔
ٹرمپ کی صدارت کے آغاز کے ساتھ دنیا اب ایک نئے نظام میں داخل ہو گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے