پاکستان کی پہلی پائلٹ شکریہ خانم کا انتقال

پاکستان کی پہلی کمرشل پائلٹ شکریہ خانم گزشتہ روز 82 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ شکریہ خانم نے 1959 میں سی پی ایل یعنی کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کیا جو اس سے قبل کسی پاکستانی خاتون نے حاصل نہیں کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پی آئی اے کے قوانین خواتین کو کمرشل پروازیں اڑانے کی اجازت نہیں دیتے تھے، اس لیے انھیں گراؤنڈ انسٹرکٹر کے طور پر ملازمت دی گئی، جہاں وہ زیرِ تربیت کیڈٹس کو پڑھانے کا فریضہ سرانجام دیتی تھیں۔

پی آئی اے کی پالیسیاں اگلی تین دہائیوں تک نہیں بدلیں اور 1989 میں جا کر دو خواتین کو پی آئی اے میں بھرتی کیا گیا، جو ملیحہ سمیع اور عائشہ رابعہ تھیں۔ کیپٹن عائشہ رابعہ نوید بعد میں پاکستان میں پہلی فلائٹ کپتان بنیں۔ شکریہ خانم ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کی خالہ تھیں جنھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘شکریہ خالہ بہت باہمت اور نڈر خاتون تھیں اور ایک ایسے دور سے تعلق رکھتی تھیں جو آج کی نسبت بہت روشن خیالی کا دور تھا۔’ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بتایا کہ ‘شکریہ خانم کو جنرل ضیا کے دور میں گراؤنڈ کر کے جہاز اڑانے سے منع کردیا گیا، کیونکہ شکریہ خانم کے بقول جنرل ضیا کو اس بات پر اعتراض تھا کہ ‘ایک خاتون ہو کر ایک مرد کے ساتھ اکیلے کاک پِٹ میں رہیں گی؟’

ڈاکٹر شاہد مسعود نے بتایا کہ وہ ‘اکثر حیران ہو کر کہتی تھیں کہ میں انہی مردوں کے ساتھ پرواز کی تیاری کرتی ہوں انہی کے ساتھ تربیت لی اور یہ سب میرے کام کے ساتھی ہیں تو پرواز میں کیا مسئلہ ہے؟ اور اسی پرواز پر فضائی میزبان بھی تو خواتین ہوتی ہیں تو یہ کیسا اعتراض ہے؟’

شکریہ خانم کے ایک شاگرد اور پائلٹ انسٹرکٹر قیصر انصاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘شکریہ نے ساری عمر اپنے عمل سے اور کوشش سے یہ ثابت کیا کہ لڑکیاں کسی سے کم نہیں اور وہ ہر میدان میں آگے جا سکتی ہیں۔ مگر پی آئی اے اور اس وقت کے اداروں، سماج اور حکومت نے ان کی قدر نہیں کی اور انہیں وہ مقام نہیں دیا جو ان کا خواب تھا اور ان کا حق تھا۔’

ڈاکٹر شاہد مسعود نے بتایا کہ شکریہ خانم کو اس بات کا بہت افسوس رہا کہ اپنے عروج کے دور میں انہیں ان کے شوق سے محروم کیا گیا، جس کے لیے انھوں نے اتنی جدوجہد کی۔ کیپٹن عائشہ رابعہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ضیا دور کی پالیسیوں کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے پی آئی میں کیڈٹ بننے کے لیے 1980 میں امتحان پاس کیا، مگر جنرل ضیا کی آمریت اور پالیسیوں کی بدولت انہیں نو سال ‘باقاعدہ تربیت کے لیے پی آئی اے میں شامل ہونے کے لیےانتظار کرنا پڑا۔’ شکریہ خانم کے بارے میں کیپٹن عائشہ نے بتایا کہ ’شکریہ خانم نے ایک ایسے دور میں پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا جس دور میں یہ مکمل طور پر مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ ان سب مردوں کے ہم پلہ تھیں جنہیں وہ تربیت دیتی تھیں۔’ کیپٹن عائشہ کہتی ہیں کہ 1990 میں پی آئی اے تربیت کے لیے آنے پر اُن کی ملاقات شکریہ خانم سے ہوئی جنہوں نے اُن کے آنے پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور انہوں نے مجھے ‘پراعتماد رہنے اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا کہا تاکہ مجھ پر یہ کہہ کر انگلی نہ اٹھائی جا سکے کہ میں ایک خاتون پائلٹ ہوں۔”

ڈاکٹر شاہد مسعود نے بتایا کہ امارات ایئرلائن نے شکریہ خانم کو دبئی آکر امارات میں شمولیت کی دعوت دی مگر انھوں نے اسے قبول نہیں کیا اور ساری عمر پاکستان میں گزاری۔

شکریہ خانم کی آخری تصویر جب وہ چیک اپ کے لیے ہسپتال آئیں جہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کو جگر کا کینسر ہے جو آخری سٹیج پر ہے۔

شکریہ خانم گزشتہ دنوں کراچی میں واقع اپنے گھر پر گر گئی تھیں جہاں وہ تنہاہ رہتی تھیں۔ علاج کے دوران معلوم ہوا کہ انہیں جگر کا کینسر لاحق تھا جو خاموشی سے اپنی آخری سٹیج تک پہنچ چکا تھا۔ انھیں کراچی سے لاہور منتقل کیا گیا جہاں ان کا انتقال سنیچر کو اتفاق ہسپتال میں ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے