قیامِ اسرائیل کے منصوبہ سے قبل فلسطین میں مختلف مذاہب کے لوگ امن سے رہتے تھے.

مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورحال بہت پیچیدہ ہے اور خطے کے مستقبل کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے – اس صورتحال کی وجوہات کو عالمی، خطے اور لوکل سطح پر پرکھنے کی ضرورت ہے- تیل کے وسائل اور خطے کی مارکیٹ پر کنٹرول کیلئے عالمی طاقتیں خطے میں سرگرم ہیں اور ان کے کئی مفادات خطے کے عدم استحکام سے بھی وابستہ ہیں-

ان خیالات کا اظہار مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر منعقدہ مباحثہ میں مقررین نے کیا۔ پروگرام کی صدارت سابق امبیسیڈر علی سرور نقوی نے کی جبکہ پاکستان میں فلسطین کے سفیر ولید ابو علی، ایسوسی ایٹ ڈین سی آئی پی ایس نسٹ ڈاکٹر تغرل یامین، پریزیڈینٹ سٹریٹجک ویژن انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ، جنرل ﴿ر﴾ نعیم خالد لودھی، پرتگال کے سفیر جائو سبیدا کوسٹا اور یمن کے سفیر ایم ایم الشہابی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- مقررین نے کہا کہعالمی طاقتوں کی خطے میں موجودگی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا ان کے بلاکس میں منقسم ہونا خطے میں سیاسی اور فرقہ وارانہ تقسیم کا باعث بنا ہے- خطے کے طاقتور ممالک کی خارجہ پالیسی زیادہ سے زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ کے حصول کیلئے تشکیل پا رہی ہے- ۰۱۰۲ میں حصولِ خود مختاری کیلئے بہت سے مشرق وسطیٰ ممالک میں عرب بہار کی تحریک نظر آئی اور اس کے نتیجے میں کچھ ممالک میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں جبکہ کئی ممالک اس کے بعد بد امنی اور خانہ جنگی کا شکار ہوئے- خلافت عثمانیہ کے بعد یورپی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ کو تقسیم کیا- بیل فور ڈیکلیریشن اور اسرائیل کا قیام ایسے تاریخی حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قیامِ اسرائیل کے منصوبہ سے قبل صدیوں سے اسی خطہ میں مختلف مذاہب کے لوگ امن سے رہتے رہے ہیں-

دنیا کے تین بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے مگر قیامِ اسرائیل کے منصوبہ کے بعد سے اس مذہبی ہم آہنگی میں کمی واقع ہوئی اور اسرائیل کا غیر قانونی قیام مشرقِ وسطیٰ میں مذہبی تقسیم کا موجب بنا – اسرائیلی افواج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور ان پر ظلم و تشدد عالمی قوانین اور تہذیب یافتہ دنیا کے اصولوں کے خلاف ہے مگر اسرائیل سے عالمی طاقتوں کے مفادات وابستہ ہیں عالمی برادی کو اپنے دوہرے معیارات ختم کرنا ہوں گے اور فلسطینیوں سمیت خطے کے تمام لوگوں کو اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ خود کرنے دینا چاہئے-مقررین نے مزید کہا کہ یہ امر باعث افسوس ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں کسی بھی عالمی معاملہ پر اتفاقِ رائے نہیں ہو اور ان کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہیں ہے- سیاسی تقسیم نے بہت سے مسائل کو گھمبیر کر دیا ہے- ابھرتے غیر ریاستی اور شدت پسند عناصر کی صور ت میں نئے مسائل سامنے آئے ہیں- ایسے عناصر کو اسلحہ کی ترسیل بھی ایک اہم معاملہ ہے-

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معیشت کا کنٹرول امن اور جنگ دونوں جانب لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے میڈیا عوام کی سوچ کنٹرول کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ لوگوں کی سوچ کسی بھی جانب لے جائی جا سکتی ہے- ایسے ممالک اور ادارے جو میڈیا ور معیشت کے کنٹرول سے منافع بنانے میں لگے ہیں، ان کے مفادات خطے کے عوام کے مفادات سے متصادم ہیں جن سے مزید مسائل پیدا ہو رہے ہیں- مشرق وسطیٰ میں مہاجرین کی صورت میں تارٰک کا بیک بہت بڑا مسئلہ ابھرا مگر افسوس کہ خطے کے ممالک اس معاملے پر خاموش رہے اور مہاجرین نے یورپ کا رخ کیا- تمام لیڈر شپ کو مل بیٹھ کر ہی اس بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہئے ایران اور عرب ممالک میں تعلقات میں بہتری خطے کے مستقبل کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے- اسی طرح قطر کے حالیہ سفارتی بحران کو حل کرنا ضروری ہے- پاکستان کی پالیسی مسائل کے حل کیلئے مصالحتی کردار ادا کرنا ہے اور مسلم ممالک میں کسی بھی تقسیم کا حصہ نہیں بنا-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے