وہ بازی لے گیا

وہ بازی لے گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد حسان
غازی علم دین شہد کو لحد میں اتارتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہم باتیں کرتے رہ گئے ترکھان کا لڑکا بازی لے گیا ، روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کے خلاف دنیا کے طاقتور ممالک خاموش اور کچھ اسلامی فوجی و سیاسی طاقتوں کے حامل ممالک بیانات کا کھیل کھیل رہے ہیں کہ اسی اثنا میں دنیا کا کمزور ترین ملک جس کی نہ کوئی فوجی برتری اور سیاسی اہمیت ہے وہ بازی لے گیا ۔ جی ہاں لاہور سے بھی کم آبادی پر مشتمل مختصر سا ملک مالدیپ بازی لے گیا ، مالدیپ نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر برما سے سرکاری سطح پر احتجاج کیا اور پھر دنیا کے تمام طاقتور ممالک سے بازی لے جاتے ہوئے برما سے تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ۔ یعنی اپنی روٹی روزی پر بھی لات مار دی ، اس نے اعلان کر دیا کہ
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پراز میں کوتاہی

مالدیب کی اوقات ہی کیا ہے کہ وہ تجارتی بائیکاٹ کرے ، مگر یہ اوقات کا نہیں غیرت کا معاملہ ہے اور مالدیپ نے ثابت کیا ہے کہ غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں ۔
کچھ عرصہ قبل فلیٹیز ہوٹل کے ایک ڈنر میں مالدیپ کے ایک وزیر سے ملاقات ہوئی ، انکے اردو بولنے پر حیرت ہوئی تو کہنے لگے وہ لاہور میں سید مودودی انسٹی ٹیوٹ سے چار سال تعلیم حاصل کرکے گئے ہیں ،مالدیپ کی جماعت اسلامی سے تعلق ہے اور وزیر ہیں ، مالدیب کے اس جرات مندانہ اقدام پر وہاں کی جماعت اسلامی کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اب دوسری جانب دیکھئے، اس وقت طیب اردگان عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں ، پہلے بھی روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کرچکے اور اب بھی دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کیلئے اٹھنے والی سب سے توانا اور موثرآواز ہیں ، ترکی نے اپنی معیشت کو مستحکم کیا ،غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کی ، اور اب وہ یورپ و امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلمانوں کے تحفظ کا ہر محاذ پر مقدمہ لڑتا ہے ، جناب یہ سب اس لئے ہے کہ اردگان اور اسکی ٹیم کی تربیت وہاں کی اسلامی تحریک نے کی ہے ، یہ وہ نظریاتی و فکری تربیت ہے جس نے انہیں اپنی ذات سے بلند ہو کر سوچنے کا انداز عطا کیا ہے اور امت مسلمہ کے مسائل کو اپنے ایجنڈے میں سنجیدہ مقام دیا ہے ۔

ہمارے ایک اینکر دوست امت مسلمہ کے لفظ پر ہنستے تھے ان کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ کا کوئی وجود نہیں ، ۳۴ ممالک کا فوجی اتحاد کس کام کا ہے ؟ او آئی سی عرصہ سے ناکارہ پڑی ہے ، امت ومت کچھ نہیں ہوتا سب بیکار کی کی باتیں ہیں ، آج ملے تو کہہ رہے تھے امت مسلمہ کا بیڑا غرق ہو ، روہنگیا میں اتنا ظلم مگر سارا عالم اسلام خاموش ، مسلم حکمران اور فوجیں خصی ہوچکی ، میرا تو دو دن سے بلڈ پریشر ہی ٹھیک نہیں ہورہا ، اتنا ظلم اور امت کی بے حسی دیکھ کر ۔۔ ! میں نے عرض کی حضور آپ پریشان ہیں ، آپ کی بے چینی ہی امت مسلمہ کی موجودگی کی دلیل ہے ، امت اسی اضطراب کا نام ہے جو اس وقت آپ کو اور آپ کی طرح ہر دھڑکتے دل والے مسلمان کو بے چین کئے ہوئے ہے ۔اقبال نے اُمت کے بھائی چارے کے فلسفے اور آپ کی اسی کیفیت کی تشریح کی تھی کہ
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھےکانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہوجائے

آج روہنگیا مسلمانوں پر جو ظلم ہورہا ہے ، تو اس کے درد نے سارے عالم اسلام کو بے چین ہی تو کیا ہے ۔ چیچن سراپا احتجاج بن گئے ، ترکی ، انڈونیشیا ، ملائیشیا ، تیونس ، مراکش کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ، بنگلہ دیش میں وحشی حسینہ کے ظلم کا شکار اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں نے بھی اپنی حکومت کی بے حسی پر احتجاج کرتے ہوئے روہنگیا مہاجرین کیلئے سرحد کھولنے کا مطالبہ کیا ، پاکستان میں بیداری کی لہر ہے ، سوشل میڈِیا پر روہنگیا ٹرینڈ مقبول ہے ، لاکھوں شہری ایک دوسرے سے ان مظالم کا تذکرہ کر رہے ہیں ، مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے بے چین ہیں، یہ سب امت مسلمہ کے مظاہر ہیں ۔

امت مسلمہ کا مذاق مت اڑائیے ، ایک عقیدے کے لوگوں کا ایک دوسرے کیلئے اتنا پریشان ہونا ہی اس بات کی علامت ہے کہ وہ ایک امت ہیں ۔ مسئلہ عوام کا نہیں مسلم حکمرانو ں کا ہے جو ایک دو کے علاوہ سب کے سب عملی طور پر سیکولر ہیں ، اسلام یا امت انکا ایشو نہیں ، وہ دنیاوی اقتدار اور مال و دولت کی نشے میں مست ہیں ، اور اپنے اسی مفاد کی خاطر جس قدر ضرورت ہو اسلام اور امت کانام لیتے ہیں مگر عملا اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی تحریکوں کو پنپنے نہیں دیتے ، یہ نام نہاد مسلم حکمران امت مسلمہ کی حقیقی غمخوار اسلامی تحریکوں کی پیٹھ میں خنجر کھوپنے اور اسلامی تحریکوں کی سیاسی کامیابیوں کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے میں ہی مصروف ہیں ۔ امت مسلمہ کے غمخوار مسلم حکمران نہیں بلکہ اسلامی تحریکیں ہیں ۔

کیا آج اگر مصر میں سیکولر ڈکٹیٹر سیسی کی بجائے جیل میں قید سابق جمہوری صدر مرسی حکمران ہوتا تو طیب اردگان کو سہارا نہ ہوتا ؟ طیب اردگان بنگلہ دیشن میں اسلام پسندوں کی پھانسیوں پر وحشی حسینہ سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے والا اکیلا حکمران ہرگز نہ ہوتا ، طاقتور فوج کے حامل ملک مصر کا حکمران مرسی اس سے چار قدم آگے بڑھ کر وحشی حسینہ کے خلاف عملی اقدامات کرچکا ہوتا ۔ آنگ سان سوچی کو تارے دکھا چکا ہوتا،روہنگیا کے مظلومین بے یارومددگار نہ ہوتے ، ، غزہ کے مسلمان بے آسرا نہ رہتے ۔۔۔

تو جناب امت مسلمہ پر نہیں، مسلم حکمرانوں پر لعن طعن کیجئے۔ وہ عرب کے بادشاہ ہوں یا مصر و الجزائر کے ڈکٹیٹر، پاکستان کے سوکالڈ جمہوری حکمران ہو ں یا بنگلہ دیش کی سیکولر پھانسی پسند حسینہ ہو۔ یہ سب ذاتی اقتدار اور دولت کے پجاری اور ملی غیرت و حمیت کے بیوپاری ہیں ، ان حکمرانوں سے نجات میں امت مسلمہ کی بقا مضمر ہے ، ان پر لعنت پھینکئے اور عوام کو شعور دیجئے کہ اسلامی تحریکوں کے ایمانتدار ، تعلیم یافتہ ، باصلاحیت اور امت کے دردر میں ڈوبے قائدین کے ہاتھ میں زمام کار دیں تو امت مسلمہ کے مسائل بھی حل ہوں اور خوشحالی و امن بھی نصیب ہو ۔

فی الحال روہنگیا کی آگ کی تپش کو محسوس کیجئے ، روہنگیا مہاجرین کی امداد کیلئے ویلفئیر تنظیمیں ترکی کی اور پاکستان کی الخدمت فاؤنڈیشن وہاں پہنچ چکیں ، انہیں مالی مدد دیجئے ، بیداری کی لہر کو چار سو پھیلا دیں ، ہر فرد جو کرسکتا ہے اس کی حوصلہ افزائی کریں کوئی ڈی پی چینج کرے کوئی اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرے ، لکھنے والے بلاگ اور کالمز لکھیں ، پروڈکشنز تیار ہوں ، ڈاکومنٹریاں اور فلمیں بنیں ، جلسے اور احتجاج ہوں، سیمینار اور کانفرنسز ہوں ، مراسلے اور ای میلز تحری میں لائیے ، دھرنے اور گھیراو ہوں ، عالمی ضمیر کو جھنجوڑیے ، بزدل حکمرانوں کو جرات مندانہ اقدامات پر مجبور کیجئے ،یہ سب کام کرنے کے ہیں ،سب کام کیجئے اپنے حصے کی شمع جلائیے ۔

وہ دیکھئے ہم سوچتے رہ گئے اور ترکھان کا لڑکا بازی لے گیا ، ایٹمی طاقت پاکستان نے میانمنار کو فوجی اسلحہ وجہاز بیچنا بند نہ کئے اور چھوٹے سے مالدیپ نے تجارتی سرگرمیاں منقطع کر لیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے