ٹرمپ کےنئے پالیسی بیان میں کشمیرکاتذکرہ

۲۲ اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں جو پالیسی بیان کی، اس کی بابت جو معلومات مجھے حاصل ہوئیں ، ان کو آپ کے علم میں لانا اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی یہ پالیسی جنوبی ایشیا کی مجموعی صورتحال کا احاطہ کرتی ہے، جس میں کشمیر کا مسئلہ بھی خطہ کی مجموعی سلامتی کی صورت حال سے جوڑا گیا ہے۔

ان معلومات کے مطابق اس سال مارچ کے اختتامی ہفتہ صدر ٹرمپ کی ہدایت پر صدر کے قومی سلامتی کے مشیر نے اپنی ٹیم کو افغانستان سے متعلق حکمت عملی پر نطر ثانی کرنے کی ہدایت کی۔ نظر ثانی کا یہ ساراعمل پورے جنوبی ایشیا کی سلامتی سے متعلق دیگر تمام امور تک بڑھایا گیا ، جن میں پاک بھارت کشیدگی اور کشمیر کی صورتحال بھی شامل تھی ۔

ایک عہدہ دار نے یہ بتایا کہ نظر ثانی کے اس عمل میں افغانستان کی صورت حال کو جنوبی ایشیا میں سلامتی کے دیگر مسائل و عوامل سے الگ تھلگ کر کے نہیں دیکھا گیا۔ ذرائع کے مطابق وائٹ ہاوس میں نظر ثانی کا عمل طویل رہا اور صدر ٹرمپ قومی سلامتی کے مشیر جنرل مایٹس اور نائب مشیر سلامتی امور لیسا کرٹس اور دیگر ارکان نے مارچ اپریل کے مہینوں میں پاکستان، افغانستان اور بھارت کے دورے کیے اور سفارشات کو زمینی صورت حال کے جائزے کے مطابق تیار کیا ۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران افغانستان سے فوری مکمل انخلا کا کہتے رہے۔ اور صدر اوباما کے ذمہ دارانہ مرحلہ وار فوجی انخلا پر تنقید کرتے رہے۔صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پہلے ارادہ تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں جلد واپس بلا لیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی میں پاکستان کے کردار کو مرکزیت فراہم کر کے غیر معمولی اہمیت دی ہے۔

صدر اوباما انتظامیہ کی افغانستان سے متعلق پالیسی جسے ”افغانستان سے ذمہ دارانہ انخلا” کا نام دیا گیا اور صدر ٹرمپ کی نظر ثانی شدہ پالیسی میں ایک بڑا فرق یہ سامنے آیا کہ موجودہ پالیسی میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ، اور انخلا کو علاقہ کی سلامتی یقینی بنانے سے منسلک کیا گیا ہے اور طالبان کو یہ واضح پیغام دیا گیا کہ اب انہیں امریکی افواج کے افغانستان سے جانے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ امریکہ اب اپنے فوجیوں کی تعداد اور اپنے منصوبے کے بارے میں کھلے عام گفتگو نہیں کرے گا۔

اس پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ یعنی طالبان اور ان کے اتحادی و مدد گار دہشت گردی کو ترک کر کے افغانستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی اور علاقائی سلامتی و استحکام کے عمل کا حصہ بنیں یا ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔دہشت گردی کے ذریعہ سے کوئی بھی مقاصد خواہ وہ کتنے ہی اچھے ہوں ، حاصل کرنے کے دن بیت گے ہیں ۔ اور آپ نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ کی تقریر میں یہ پیغام بڑا واضح تھا۔

جنگ و دہشت گردی کے راستے پر چل رہے طالبان کو ایک واضح صاف الفاظ و سخت زبان میں یہ سمجھانا ضروری ہے کہ جنگ کے میدان میں وہ کسی صورت جیت نہیں سکتے ۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت اپنے نیٹو اتحادی ممالک اور بھارت ، چین ، ایران، روس سمیت کوئی اور ملک جوطالبان پر کسی قسم کا اثر رکھتا ہے ان سے مدد حاصل کی جائے گی۔ ان کی خواہش ہے کہ طاقت کے حربے استعمال کرنے سے پہلے ان سے بامعنی با مقصد بات چیت ہو ، جس کے نتیجے میں افغانستان اور افغانستان سے جڑے پاکستان میں بھی امن قایم ہو تعلقات بہتر ہوں اور تعمیر ترقی کا کام شروع ہو۔

ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نئی حکمت عملی میں ریاست امریکہ کی طاقت کے تمام منبعوں فوجی سیاسی، سفار تی اور مالی اداروں کو مربوط کیا جائے‌گا تا کہ یہ جنگ یکسوئی سے اہداف حاصل کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو۔

ٹرمپ انتظامیہ نے علاقائی طاقتوں اور ممالک کو اعتماد میں لینے اور اپنی کوششوں میں حصہ دار بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بہت معنی خیز ہے ، اس سے امید ہے کہ دیگر ان مسائل پر بھی بات چیت کا سلسلہ چل نکلے گا جن کی وجہ سے علاقے میں بین المملکتی تناو پایا جاتا ہے۔ پالیسی پیپر کے مطابق امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی ، اور اگر پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں امریکہ سے شراکت داری نہیں کرتا اور اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

نئی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان امریکہ کا بہت اہم اتحادی ملک رہا ہے اور کہا گیا کہ ہمارے بہت سے مفادات اور دشمن مشترکہ ہیں۔صدر ٹرمپ کی پالیسی تقریر میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی فوجوں نے مل کر ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑائی کی ہے۔ پاکستان کے عوام نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور ہم ان کی قربانیوں اور خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔

میں ذیل میں موصولہ پالیسی پیپر کے کشمیر سے متعلقہ پیرا گراف کو من و عن نقل کر رہا ہوں تا کہ سفارتی زبان کو اس کے پس منظر کے ساتھ سمجھنے میں آسانی رہے۔

“ We will work closely with India and Pakistan to encourage them to take confidence building measures and to find way to re-engage in dialogue on the issues that divide them. The two sides made progress on relations, including on the vexed issue of KASHMIR, from 2004-2007, and it is possible to re-create this positive atmosphere. That will be the goal of this Adminstration”. ـ۔۔۔

صدر ٹرمپ کی تقریر سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس نئی پالیسی کے بارے میں اتحادیوں کی حمایت کی توقع کرتا ہے۔ پالیسی پیپر میں ایٹمی جنگ کے خطرہ اور تدارک کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ بھی من و عن منقول کر رہا ہوں:

“Reducing nuclear danger in South Asia is a critical element of protecting the safety and security of Americans. This South Asia Strategy takes seriously the threat that nuclear weapons or related materials could be obtained by terrorists.
It also prioritizes -de escalating tensions between India and Pakistan to avoid the potential for outbreak of war that could go nuclear.”

پالیسی بیان سے لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کو کشمیر کی حساسیت کا ادراک ہے۔ میرے نزدیک جو مشکل درپیش ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کو امریکہ پر اعتماد نہیں اور امریکہ کو پاکستان پر اعتماد نہیں رہا۔ امریکی انتظامیہ اندرونی سیاسی مشکلات کے باوجود جنوبی ایشیا کے لیے وضع کردہ نئی پالیسی پر عملدرآمد کرانے میں لگی ہے اور اس سلسلہ میں کلنٹن دور کے نائب وزیر خارجہ کارل انڈر فورتھ کے مطابق جنوبی ایشیا کے امور کی ماہر لیسا کرٹس کی قیادت میں ان کی ٹیم بہتر انداز میں کام کر رہی ہے۔

میرا یہ خیال ہے کہ کشمیری رہنماوں کو اپنے عوام کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی نہ صرف بدلنا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ وہ بجائے کسی اور کی حکمت عملی کا حصہ بننے کے اپنا لائحہ عمل خود مرتب کریں۔ ہماری موجودہ روش اور طرز عمل نے ہمیں بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ جلد سے جلد اس بند گلی سے باہر نکل کر کسی ایسی راہ پر چل نکلیں جسے وہ خود بھی جانتے ہوں ،‌اس‌طرح نہ انہیں کسی ‘گائیڈ’ کی ضرورت پڑے گی نہ ہی کسی کی جانب سے ‘زاد راہ’ کی۔

بقول شاعر:

راہبر ملتے ہیں لیکن راہ دکھلاتے نہیں ّ
منزلوں پر جو پہنچ جائے وہی رہ گیر ہے

کالم نگار امریکہ میں کشمیر گلوبل کانفرنس اور ساوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ سے وابستہ ہیں

۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے