اگر کبھی پبلک ٹوائلیٹ میں جائیں تو وہاں پر لکھی گالیاں دیکھ کر احساس ہوتا کہ ہم کس قسم کی قوم ہیں مگر یہ تسلی بھی ہوتی ہے کہ ایک ایسی جگہ پر اسی قسم کا غصہ نکالا گیا ہے یہ کس نے کیا نہیں معلوم۔اور گالیاں لکھنے والوں کو بھی شائد اس کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کوئی قابل تحسین کام نہیں کررہے لہذا ایک تو جگہ ایسی چنی گئی ہے دوسرا لکھنے والا اپنی شناخت کو چھپا کر ہی رکھتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب کرنے کے باوجود اسے احساس ندامت ہوتا ہے کہ یہ کوئی اچھا کام نہیں۔ آج تک ایسے لوگ انتہائی گھٹیا بے شرم اور ذہنی پستی کا شکار معلوم ہوتے تھے مگر آج جب ایک نام نہاد عالم کو اسلام آباد میں دھرنے کے دوران گالم گلوچ کرتے دیکھ رہے ہیں سب کی ایسی تیسی کرتے سن رہے ہیں تو ٹوائلیٹ میں گالیاں لکھنے والے لوگ انتہائی معقول لگ رہے ہیں بلکہ وہ تو شریف النفس لگ رہے ہیں کہ ان کو معلوم ہے یہ کوئی اچھا کام نہیں کر رہے مگر کم از کم جگہ تو اسی نسبت سے چنی اور اپنی شناخت تو خفیہ رکھی اور سب سے بڑھ کر شرم بھی باقی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے اور غصہ یا کتھارسس بھی ہو جائے۔
مگر اسلام آباد میں اسپکیر کے سامنے بیٹھ کر دن دیہاڑے سب کے سامنے اور وہ بھی فخر سے گالیاں دینا تواتر سے دینا صبح شام دینا اور گھنٹوں دینا یہ کسی گناہگار کا کام نہیں ہو سکتا یہ کوئی نام نہاد مولوی ہی کر سکتا ہے کسی نے اسکو تھوڑا ہی پوچھنا کیونکہ فتوے دینے کا لائیسنس تو اسکے پاس ہے اسکی گالی بھی عبادت ہی گنی جائے گی میں اور آپ کون آئے تنقید کرنے یا انگلی اٹھانے والے۔۔۔خود پر کفر کے فتوے لگوانے کا شوق ہے کیا؟؟
اور وہ جو احادیث ہیں گندی زبان اور گالیوں کے بارے میں کہ ٫مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور ،کسی کے والدین کو گالی دینا اپنے والدین کو گالی دینے کے مترادف ہے، اور گالم گلوچ منافق کی نشانی ہے، کچھ حدیثیں گالی کو گناہ کبیرہ بھی ظاہر کرتی ہیں یہ سب احادیث ایسے مولویوں کی نظر میں عام آدمیوں کے لیے ہیں انکے اپنے لیے استثنی ہے کیا؟ان احادیث میں سے ایک ہے کہ منافق کی نشانی ہے کہ جھگڑا کرتے وقت گالی دے کر بات کرتا ہے تو اس پیرائے میں یہ نام نہاد شخص پہلےاپنے ایمان کی فکر کرے اور جو مقصد لیکر یہ سب کیا جا رہا ہے وہ صرف اسکا معاملہ نہیں ہے ختم نبوت ہر مسلمان کا مسئلہ ہے حکومت کی جانب سے غلطی یا کوتائی بہرحال ہوئی کہ اگر حلف نامے میں قسم کھاتا ہوں یا اقرار کرتا ہوں میں اگر کوئی فرق ہی نہیں تھا تو پھر تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ سب کس نے کیا تھا اس کو شناخت کرنے میں کونسا راکٹ سائینس ہے؟ اور اب جو وزیروں کی طرف سے تحویلیں دی جارہی ہیں کلمے پڑھ پڑھ کر سنائے جارہے ہیں تو یہ پنگا کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟؟
مگر دوسری طرف اگر کوئی کہہ رہا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو یقین نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا اسلام میں ایسی ٘مثالیں نہیں کہ قتل کرنے پر پوچھا گیا کہ جب قتل ہونے والے نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو کیوں کیا کیا تم نیت جانتے تھے؟
اور کیا ختم نبوت کا تحفظ گالیاں دیکر کیا جائے گا؟ملک میں علماءدین کی بہتات ہے تو کیا وجہ ہے کہ کوئی آپ کے ساتھ نہیں اور بلفرض اگر کوئی ہے بھی تو وہ بھی آپ کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتا کیا وہ سب ایمان سے خارج ہوگئے؟کیا خدا نے ایک گندی زبان والے آدمی سے اپنے محبوب کا تحفظ کروانا ہے استغفراللہ۔۔۔۔ویسے تاریخ کی کتابوں سے ثابت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی گالیاں دیتا تھا اور اب اس کے ساتھی اسکی گالیوں کا دفاع بھی کرتے ہیں تو کیا آپ کی نسبت تو اس سے بنتی ہے ۔ دنیا کو کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا تحفظ گالیوں سے کیا جاتا ہے اسلام تو وہ مذہب ہے جو رحمت بن کر آیا ہے اور آپ اپنی غلط طریقے سے نہ صرف غیر مسلم کو مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کے اندر بھی بدگمانی پیدا کرنے کا سامان کر رہے ہیں اور عاشق رسول گلے کٹواتا ہے گالیاں نہیں دیتا۔