نوروز اور فاطمہ نے خود کشی کی مکمل منصوبہ بندی کی تھی ۔

نوروز فاطمہ

سولجر بازار کے علاقے پٹیل پاڑہ میں واقع گلشن فاطمہ اسکول میں منگل کو جان کی بازی ہارنے والے نوعمر طلبہ کے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط اور ڈرائنگز کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے اور پولیس اس واقعے کی تفتیش خودکشی کے کیس کے حوالے سے کر رہی ہے.

خود کشی کے اس واقعے نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے اور گھروں میں اس موضوع پر گفت گو کی جارہی ہے ۔

سولہ سالہ نوروز نے منگل کی صبح اسکول میں اپنی ہم جماعت 15 سالہ فاطمہ بشیر عرف صباء کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی ، خود کشی سے قبل دونوں نے خطوط بھی چھوڑے تھے کہ ان کے والدین ان کی شادی کے لیے راضی نہیں ہوں گے اس لیے وہ اپنی مرضی سے خود کشی کر رہے ہیں.

جمشید ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس اختر فاروق کے مطابق پولیس کو لڑکے کے اسکول بیگ میں سے ہاتھ سے لکھے ہوئے مزید خطوط اور کچھ ڈرائنگز ملی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے.

ایس پی اختر فاروق کے مطابق لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے البتہ دونوں کے خاندان ان کی دوستی کو درست نہیں سمجھتے تھے، نوروز کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا جبکہ لڑکی کے اہلخانہ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایس پی کے مطابق ان خطوط سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں کم سن طلبہ نے خود کشی اچانک نہیں کی بلکہ اس کے لیے انہوں نے کئی دن پہلے سے منصوبہ بندی کی، ایک خط میں لڑکے نے زہریلی دوا پی کر خودکشی کا ارادہ ظاہر کیا جبکہ ایک خط سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی محض ایک سال ہی پرانی ہے، جبکہ لڑکے کے بیگ سے ملنے والی ایک ڈرائنگ میں اُس نے اپنے اور فاطمہ کے نمازِ جنازہ کی منظر کشی کی ہے.

دو روز قبل ہی نوروز نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھ دیا تھا کہ ‘میں کل مر جاؤں گا’ (tomorrow I will die)، جبکہ نوروز نے فیس بک کی پرو فائل پر بھی ایک لڑکے اور لڑکی کی اجتماعی خود کشی کی تصویر لگارکھی تھی جس سے اس کے ارادے کی جانب نشاندہی ہورہی ہے.دوسری جانب 15 سالہ فاطمہ عرف صبا کی فیس بک آئی ڈی پر واضح طور پر تحریر تھا کہ "میں نوروز سے محبت کرتی ہوں” (I love NavRoz).

فیس بک انتظامیہ کی جانب سے خود کشی کرنے والے 16 سالہ نوروز اور 15 سالہ فاطمہ کے فیس بک کے اکاؤنٹ بند کیے جاچکے ہیں.

 

Untitled

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کافی گرما گرمی ہے ۔ روایت پسند طبقہ اس واقعے کا ذمہ دار پاکستانی میڈیا ، دین سے دوری اور بھارتی فلموں کو قرار دیتا ہے جبکہ لبرل طبقہ اس واقعے کا ذمہ دار روایت پسند طبقے کے معاشرے پر مسلط کردہ جبر کو قرار دیتا ہے ۔ زات بات ، رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کی وجہ سے اس طرح کی خود کشیاں ہوتی ہیں ۔

اختر فاروق کے مطابق فائرنگ کے لیے استعمال ہونے والا پستول لڑکی اپنے ہمراہ لائی تھی، جو اُس نے لڑکے کے حوالے کردیا جبکہ طلبہ کے بیگ سے ملنے والے ایک خط میں بھی نوروز نے فاطمہ کو پستول لانے کا کہا تھا، پستول کا لائسنس بھی لڑکی کے والد کے نام پر ہے،جسے پولیس نے تحویل میں لے لیا.

 

ابتدائی تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نوروز اور فاطمہ کو کھیل کود اور اپنے کلاس فیلوز میں زیادہ دلچسبی نہیں تھی ۔

طلبہ کے اہلخانہ کے ابتدائی بیان کے مطابق دونوں نے اس اقدام سے پہلے کسی غیر معمولی رویے کا اظہار نہیں کیا، لڑکی کےاہلخانہ کے مطابق صبا نے رات کو کھانا کھانے سے انکار کرکے برگر کھانے پر اصرار کیا.

واقعے کے بعد اسکول آج بھی بند ہے جبکہ طلبہ میں خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے