کیا اس ملک کی سیاست کو مذہبی استحصال سے پاک کیا جا سکتا ہے؟
نوازشریف صاحب نے ایک اقدام کیا۔داماد نے اُس کے خلاف قومی اسمبلی میں قراردارپیش کر دی۔اسمبلی نے متفقہ طور پرداماد کا ساتھ دیا۔اب یہ سسر اور داماد کا معاملہ نہیں رہا،قوم کی متفقہ رائے قرار پائی۔اس پیش رفت کے بعد،ایک سوال مسلسل میرے تعاقب میں ہے :
کیا اس ملک میں لبرل سیاست کا کوئی مستقبل ہے؟اس سوال کو زیرِ بحث لانے سے پہلے،یہ وضاحت لازم ہے کہ لبرل سیاست سے میری مراد لبرل ازم پر مبنی سیاست نہیں،ان اقدار کی سیاست ہے جو کسی مذہبی یا غیر مذہبی تعصب پر مبنی نہ ہوں۔
پاکستان میں دوطرح کے لبرلز پائے جاتے ہیں۔
ایک وہ جو لبرل ازم پر بطور فلسفۂ زندگی ایمان رکھتے ہیں۔انہیں ہم نظریاتی لبرل کہہ سکتے ہیں۔’لبرل ازم‘ مذہب کے بالمقابل ایک تصورِ حیات ہے۔اس تصور میں انسان کو ایک آزاد مخلوق خیال کیا جاتا ہے جو کسی خارجی قوت کا یہ استحقاق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اس کے لیے انفرادی یا اجتماعی سطح پرکوئی لائحہ عمل طے کرے۔
انسانوں کی اجتماعی دانش کوالبتہ وہ یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے طور پر چاہے تو نظم ِ اجتماعی کو قائم رکھنے کے لیے کوئی قانون یا ضابطہ تشکیل دے سکتا ہے۔پاکستان میں نظریاتی لبرل عددی طور پر بہت کم ہیں۔
دوسرے لبرل وہ ہیں جنہیں عملی لبرلز کہا جا سکتاہے۔ یہ ممکن ہے انفرادی سطح پر مطلق انسانی آزادی کو تسلیم نہ کرتے ہوں مگر اس بات کے قائل ہیں کہ اپنے لیے کسی تصورِ حیات کا انتخاب انفرادی معاملہ ہے۔ہم کسی کو جبراً پابند نہیں کر سکتے کہ وہ لازماً کسی خاص تصورِ حیات پر ایمان لائے یا اس کے تحت زندگی گزارے۔فرد کے ساتھ،یہ جبر ریاستی یا معاشرتی سطح پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔یہ طبقہ اجتماعی امور میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔اس کے خیال میں اگر کسی معاشرے کی اکثریت کسی خاص تصورِ حیات کے تحت ریاستی یا سماجی زندگی کی تشکیل چاہتی ہے تووہ اس کا حق رکھتی ہے۔
کسی معاشرے کا اجتماعی شعور اگر کسی خاص مذہب کا پابند رہنا چاہتاہے تواس کا یہ حق ثابت ہے۔ تاہم کسی جمہوری اصول کے تحت بھی، فرد کی یہ آزادی سلب نہیں کی جا سکتی‘ جو مذہب یا کسی فلسفہ کو اختیار کرنے کے باب میں اسے حاصل ہے۔جمہوری ریاستوں میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جا تا ہے کہ کوئی قانون بنیادی حقوق کے خلاف نہیں بن سکتا۔
نوازشریف صاحب کی شخصیت کا خمیر روایتی مذہبیت سے اٹھا ہے وہی،کیپٹن صفدر آج جس کے علم بردار ہیں۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس میں ایک واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔یہ کسی مکتب کی کرامت نہیں،زندگی کے تجربات کا حاصل اور پرویز رشید صاحب جیسے نظریاتی لبرلز کی صحبت کا فیضان دکھائی دیتا ہے۔
نوازشریف صاحب کو سیاسی تجربے نے یہ سکھایا ہے کہ ایک جدید ریاست کی ساخت روایتی مذہبیت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ شہریوں میں مذہب کی بنیادپر امتیاز ،دورِ حاضر میں ایک ناقابل ِقبول تصور ہے۔پھر جس طرح روایتی مذہبیت سے انتہا پسندی نمودار ہوئی،اس نے بھی ان کے فکری ارتقامیں اہم کردار ادا کیاہے۔
نوازشریف صاحب کے خیالات میں یہ تبدیلی ان کے اقدامات میں بھی منعکس ہوئی جب وہ وزیراعظم بنے۔جیسے وہ ہولی کے پروگرام میں شریک ہوئے اورمذہبی اقلیتوں میں انہوں نے مساوی شہری حقوق کاتصور اجاگر کیا۔ اسی سلسلے کا ایک اقدام قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنا تھا۔جب قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر انتخابی قوانین میں اصلاحات کا فیصلہ کیاتوختمِ نبوت کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔نوازشریف صاحب کو قادیانی نواز ثابت کرنے کے لیے جو مواد جمع کیا گیا،اس میں ایک جرم ادارے کے نام کی تبدیلی بھی تھی۔کیپٹن صفدر اس کی تلافی کی کوشش میں ہیں۔قومی اسمبلی میں ان کی طرف سے جو قرارداد سامنے آئی،وہ بھی بنظرِ غائر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ قرارداد دراصل اس ابہام کاایک مظہر ہے ،ہمارے اہلِ سیاست جس میں مبتلا ہیں۔ریاست کے معاملات سے براہ راست متعلق ہونے سے،ان پر یہ واضح ہے کہ روایتی مذہبی تعبیرات کے ساتھ کوئی نظامِ مملکت اب چلایا نہیں جا سکتا۔وہ اس سے نجات چاہتے ہیں ،مگر دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ بدستور اسی کی گرفت میں ہے۔ ہر لمحہ انہیں یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں وہ توہینِ مذہب کے مرتکب نہ قرار پاجائیں۔
اگر ایسا ہوگیا تو ان کا ووٹ بینک ان سے چھن جائے گا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ انتخابی قوانین میں تبدیلی متفقہ طور پر ہوئی اور تمام سیاسی جماعتیں اس میں شریک تھیں۔مگرجب ختمِ نبوت کا مسئلہ اٹھا تو سب نے جان چھڑا نے کی کوشش کی اورذمہ داری دوسروں کے کاندھے پر ڈالنا چاہی۔
قومی اسمبلی میں کیپٹن صفدر کی پیش کردہ قرارداد اس رویے کا تازہ ترین مظہر ہے۔یہ قرارداد انہوں نے ن لیگ کا دامن صاف کرنے کے لیے پیش کی۔دیگر جماعتوں کو خیال ہوا کہ اگر انہوں نے مخالفت کی تو کہیں وہ بھی قادیانی نواز نہ ٹھہرائے جائیں۔یوں قومی اسمبلی نے اسے متفقہ طورپر منظور کر لیا۔ظاہر ہے کہ اس کی تائید کرنے والوں میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہے جو پاکستان میں لبرل سیاست کی علم بردار ہے۔یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے،اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ پاکستان میں لبرل سیاست کا مستقبل کیا ہے؟
اگر ایک معاشرہ رویے کے اعتبار سے لبرل نہ ہو تو وہ جمہوری نہیں ہو سکتا ہے۔آزادیٔ فکر و نظر کے بغیر معاشرتی ارتقا کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ایسے معاشرے افکار کا جوہر بن جاتے ہیں جہاں تنقیدی شعور پروان نہ چڑھ سکے۔مذہبی خیالات کی زندگی بھی اس پر موقوف ہے کہ وہ تنقید سے گزریں اور وقت کی کسوٹی پر کھرے قرار پائیں۔
یہی کارِ تجدید ہے۔ میں ایک مذہبی آدمی ہوتے ہوئے،اطمینان رکھتا ہوں کہ مذہب انسان کی فطری طلب ہے اور کسی دور کا انسان اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔تاہم مذہب انسان کے اس حق کا سب سے بڑا علم بردار ہے کہ انسانوں کومذہبی آزادی ملنی چاہیے۔
اسلام کے نزدیک تو اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اس نے مذہبی آزادی کے لیے جہاد کا حکم دیا ہے۔قرآن مجید نے فتنے کے خاتمے کو جہاد کی ایک علت بتایا ہے۔ فتنے سے مراد مذہبی جبر(persecution) ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ وہی ہو سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو اپنی پسند کی زندگی گزارنے کی آزادی ہو اور یہ کہ یہ آزادی سماجی امن کے لیے خطرہ بن جائے۔تاہم یہ اسی لبرل رویے کا حصہ ہے کہ عوامی رائے سے قائم ہونے والی پارلیمنٹ اگر کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے قبول کیا جائے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے باب میں پارلیمنٹ کی قرارداد اس بات کا اظہار ہے کہ ہمارے اراکینِ پارلیمان جبریت سے نکلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔یہ نوازشریف صاحب کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ووٹ کی عزت ایک سماجی تبدیلی سے مشروط ہے۔اگر ووٹر جبر کا شکار ہے تو بھی اس کی عزت مجروح ہو گی۔واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ووٹررکوریاستی اداروں ہی کے نہیں، انتہا پسندوں کے جبر سے بھی نجات دلانے کی ضرورت ہے۔
نوازشریف صاحب کو سب کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔کیپٹن صفدر کی قرارداد اگرخود کو ایسے طبقات کے جبر سے بچانے کے لیے ہے تو یہ کمزوری کی دلیل ہے۔اگر یہ سوچی سمجھی رائے ہے تو یہ رجعت پسندی کا اظہار ہے۔دونوں صورتوں میں نوازشریف صاحب کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
نوازشریف صاحب کا امتیاز یہ ہے کہ ان کا بیانیہ ایک سیاسی تبدیلی کی بنیاد بن رہا ہے۔اگر وہ ریاستی اداروں کے خوف سے باہر آرہے ہیں تو انہیں دوسری قوتوں کے خوف سے بھی نکلنا ہوگا۔وہ لیڈر ہیں تو انہیں آگے بڑھ کر سٹیٹس کی تمام قوتوں کے خوف کو ختم کر نا ہوگا۔ان میں مذہبی انتہا پسند بھی شامل ہیں۔ادارے کے نام کی تبدیلی دراصل اسی جنونیت کا مسئلہ ہے۔