روس اور شامی فوج کی ادلب پر پھر شدید بمباری

روسی اور شامی جنگی طیاروں نے مخالفین کے زیرِ قبضہ صوبے ادلب پر پھر شدید بمباری کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ فضائی حملے گزشتہ روز ہونے والے ترکی،ایران اور روس کے سہ ملکی اجلاس کے بعد کیے گئے ،جس میں جنگ بندی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا تھا۔

ادلب میں کیے گئے حملوں سے متعلق عینی شاہدین اور ریسکیو اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ادلب کے جنوبی علاقوں،شمالی صوبے ہاما کے علاقوں کفر زیتا اورلاتمنا میں ایک درجن سے زائد فضائی حملے کیے گئے۔

علاقہ مکینوں نے بتایا کہ شامی ہیلی کاپٹروں نے ادلب کے جنوبی شہر خان شیخون میں گھروں پر دھماکہ خیز مواد سے بھرے ہوئے بیرل بم گرائے تھے۔

دوسری جانب شامی فوج نے بیرل بم استعمال کرنے کی رپورٹس کو مسترد کردیا ہے ۔ تاہم اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ شامی فوج ان کا استعمال کثیر تعداد میں کرتی ہے۔

وائٹ ہیلمٹس نامی مغربی حمایت یافتہ شامی سول ڈیفنس فورس کا کہنا تھا کہ انہوں نے تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے 4 افراد کی لاشیں اٹھائی تھیں،جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔

روسی طیاروں نے خان شیخون کے قریبی گاؤں عابدین میں عمارت پر بھی فضائی حملہ کیا تھا۔

ایک امدادی کارکن کا کہنا تھا کہ حاس کے علاقے میں ہسپتال پر بمباری کے بعد اسے بند کردیا گیا۔

ادلب کے دو باغی اتحاد، نیشنل لبریشن فرنٹ اور جہادی گروپ حیات تحریر الشام کا کہنا ہے کہ مختلف نظریات کے باوجود وہ مشترکہ خطرے کا سامنا کرنے کے لیے متحد ہیں۔

بشار الاسد کے مخالف مسلح باغی کا کہنا ہے کہ جنگ فیصلہ کن مرحلے پر آپہنچی ہے اور 7 سال سے زائد عرصے پر محیط اس جنگ میں شکست کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

حیات تحریر الشام کے ترجمان عمادالدین مجاہد نے بتایا کہ ’ہم اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے تمام مسلح گروہوں سے رابطے میں ہیں۔‘

جمعہ (7 ستمبر) کو تہران میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان اور حسن روحانی کے درمیان ہونے والے سہ فریقی سربراہی اجلاس میں شام کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا تھا کہ ادلب میں خونی کھیل سے بچنے کے لیے جنگ بندی کی جائے۔

روسی صدرپیوٹن نے کہا کہ ‘دہشت گرد جنگ بندی کے عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سمیت مختلف شرانگیزیوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں’۔

ایران اور روس نے مغربی حمایت یافتہ باغیوں اور مسلح اسلامی گروہوں کے خلاف جنگ میں بشار الاسد کی مدد کی ہے جبکہ یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ شام میں موجود مخالفین کا سب سے بڑا حامی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام میں بڑے پیمانے پر حملے سے انسانی بحران جنم لے سکتا ہے جس میں لاکھوں شہری متاثر ہوسکتے ہیں۔

گزشتہ روز ادلب کے علاقوں میں ہزاروں شامی شہریوں نے احتجاج کیا تھا کہ وہ بشار الاسد کی حکمرانی کو کبھی قبول نہیں کریں گے اورحکومت مخالف علاقوں میں کیے جانے والے آپریشن کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے