نایاب ترین خون ’بامبے نیگیٹو‘ ہے کیا؟

انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور کے رہائیشی محبوب پاشا 15 سال قبل تک یہ جانتے تھے کہ ان کا بلڈ گروپ ‘او نیگیٹو’ یا ‘او منفی’ اور انھوں نے اسی خیال کے تحت کئی بار اپنے خون کا عطیہ بھی کیا۔

لیکن، ایک دن اچانک محبوب پاشا کو ایک شخص کا فون آیا اور انھیں پتہ چلا کہ ان کا بلڈ گروپ ‘او نیگیٹو’ نہیں بلکہ ان کا بلڈ گروپ دنیا کا کمیاب ترین بلڈ گروپ ‘بامبے نیگیٹو’ ہے۔

خیال رہے کہ بامبے مثبت/منفی بلڈ گروپ کا شمار نایاب بلڈ گروپ میں ہوتا ہے۔

محبوب پاشا نے کئی سال قبل سینٹ جونز ہسپتال میں خون کا عطیہ کیا تھا اور عطیہ دینے والے کے طور پر وہاں ان کا نام درج تھا۔

ایک دن ہسپتال سے اروند نامی ایک شخص کا انھیں فون آیا۔ ارونڈ کی اہلیہ حاملہ تھیں اور انھیں خون کی ضرورت تھی۔ اسی سلسلے میں اروند سے محبوب پاشا کو اپنے خون کے گروپ کا پتہ چلا۔

اروند نے پاشا سے کہا کہ وہ اپنے خون کا عطیہ کسی عام کیمپ میں دینے کے بجائے صرف اپنے بلڈ گروپ والے کو عطیہ کریں کیونکہ ایسے لوگ بہت مشکل سے ملتے ہیں اور ایک بار خون کا عطیہ کرنے کے بعد تین ماہ تک دوبارہ نہیں کر سکتے۔

[pullquote]پاکستانی بچی زینب کے لیے اسی بلڈ گروپ کی تلاش[/pullquote]

ایک دو سالہ پاکستانی نژاد امریکی بچی کی جان بچانے کے لیے خون کے ایک نایاب گروپ کی ضرورت ہے جس کی تلاش کے لیے دنیا بھر میں تلاش شروع کر دی گئی ہے۔

کینسر کے مرض میں مبتلا زینب مغل نامی اس بچی کو بڑی مقدار میں خون کی ضرورت ہے اور اس کا خون کا گروپ دنیا کا نایاب ترین گروپ ہے جس کی وجہ سے اس کی تلاش میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

کارکنوں نے اب تک ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کا گروپ ٹیسٹ کیا ہے لیکن اب تک صرف تین لوگ ایسے ملے ہیں جن کا یہی گروپ ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انھیں زینب کے علاج کے لیے سات سے دس عطیہ کندگان کی ضرورت ہے۔

[pullquote]انڈیا سے میانمار بھیجا گيا خون[/pullquote]

حال میں بامبے بلڈ گروپ کا ذکر میڈیا میں اس وقت آیا جب اس گروپ کی دو یونٹس ہندوستان سے میانمار روانہ کی گئی۔ میانمار میں ایک خاتون کے دل کی سرجری تھی لیکن وہ انھیں اپنے ملک میں اپنے بلڈ گروپ کا خون نہیں مل سکا۔

اس کے بعد میانمار کے یانگون (رنگون) جنرل ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ہندوستانی تنظیم سنکلپ انڈیا فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا۔

یہ تنظیم بامبے بلڈ رکھنے والے بلڈ بینک، عطیہ دہندگان اور ضرورت مند افراد کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے اور بامبے بلڈ گروپ ڈاٹ اور آر جی نامی ویب سائٹ کے ذریعے اپنا نظام چلاتی ہے۔

میانمار کے لیے سنکلپ انڈیا نے کرناٹک کے داونگیرے بلڈ بینک سے رابطہ کیا۔ ان کے پاس اس بلڈ گروپ کی دو یونٹ موجود تھی جو کوریئر سے 27 نومبر کو میانمار بھیجی گئي جہاں وہ 29 نومبر کو پہنچی۔

عام طور پر خون کے لیے کسی دوسرے ملک سے رابطہ کرنے کی ضرورت شاذ و نادر ہی پڑتی ہے۔ خون کا عطیہ کرنے والا یا بلڈ بینک قرب و جوار میں ہی مل جاتا ہے لیکن بامبے بلڈ گروپ کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔

[pullquote]آخر خون کی یہ قسم اتنی کمیاب کیوں ہے؟[/pullquote]

اس بارے میں سنکلپ فاؤنڈیشن میں بامبے بلڈ گروپ خون کی انچارج کماری انکیتا نے بتایا: ‘یہ بہت کمیاب خون کی قسم ہے۔ انڈیا میں دس ہزار لوگوں میں ایک شخص کا بلڈ گروپ بامبے گروپ ہو سکتا ہے۔’

‘اس گروپ کے لوگوں کی تلاش بھی ایک بڑا مسئلہ ہے خون کی عام جانچ میں اس کا پتہ نہیں چلتا۔ ‘او’ بلڈ گروپ سے مماثل ہونے کی وجہ سے اسے ‘او’ مثبت یا منفی مان لیا جاتا ہے۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ بامبے گروپ کے حامل ہیں۔ جب کسی مریض کو یہ خون دیا جاتا ہے اس وقت پتہ چلتا ہے کہ جسے او سمجھا جا رہا تھا وہ در اصل بامبے گروپ ہے کیونکہ وہ مریض کے اسی گروپ سے مماثل نہیں ہوتا۔’

خون کے ضرورت مند اور عطیہ دہندگان کے درمیان رابطے کے بارے میں انکیتا نے بتایا: ‘ہمارے نیٹ ورک سے ڈونرز اور خون کے بینک منسلک ہیں۔ ہم سے تقریبا 250 ڈونرز منسلک ہیں جو رضاکاروں کی طرح ہیں۔ جب بلڈ بینک سے خون نہیں ملتا تو ہم ڈونرز سے مدد حاصل کرتے ہیں۔’

محبوب پاشا بھی سنکلپ فاؤنڈیشن کے رضاکاروں میں شامل ہیں۔ پاشا کو اپنے خون کے نایاب گروپ پر فخر ہے۔

انھوں نے کہا: ‘ایک بار جب میں خون عطیہ کرنے آیا تو ڈاکٹروں نے مجھ سے کسی سیلبریٹی کی طرح ملاقات کی اور انھوں نے کہا کہ میں خوش نصیب ہوں۔ ہمیں خون دینے کا موقع ملتا ہے جو ہمارے لیے بڑی خوشی کا باعث ہے۔’

[pullquote]خون کے دوسرے گروپ سے مختلف[/pullquote]

بامبے بلڈ گروپ کے دوسرے گروپوں سے مختلف ہونے کے بارے میں دہلی کے گنگارام ہسپتال میں بلڈ بینک کے انچارج ڈاکٹر وویک رنجن نے بتایا: ‘ہمارے خون میں موجود خون کے سرخ ذرات میں کچھ شوگر مولیكيولز ہوتے ہیں، جو یہ تعین کرتے ہیں کہ کس شخص کا بلڈ گروپ کیا ہوگا۔ ان مولیکیولز سے ہی کیپیٹل ایچ اینٹیجن بنتا ہے اور اسی سے باقی اینٹیجنز A اور B کا فیصلہ ہوتا ہے۔

‘جبکہ بامبے بلڈ گروپ کے لوگوں میں شوگر مولیکیولز نہیں بن پاتے اس لیے ان میں کیپیٹل ایچ اینٹیجنٹ نہیں ہوتا۔ لہذا وہ کسی بھی بلڈ گروپ میں نہیں آتے۔ لیکن ان کے پلازما میں اینٹی باڈی اے بی اور ایچ ہوتے ہں۔ ایسے بلڈ گروپ والوں کی زندگی معمول کی ہوتی ہے اور انھیں جسمانی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔’

بامبے بلڈ گروپ پر ‘او’ گروپ کا شبہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں میکس ہسپتال میں ٹرانسفیوژن میڈیسن کے سینیئر ڈاکٹر انوبھو بتاتے ہیں: ‘جن لوگوں میں بامبے بلڈ گروپ ہوتا ہے ان میں اے، بی اور ایچ اینٹیجنٹ نہیں ہوتے۔ اس لیے جانچ میں بھی اے، بی، اے بی، بلڈ گروپ نہیں آتے تو اس پر ‘او’ ہونے کا وہم پیدا ہو جاتا ہے۔’

لیکن جب اسے او گروپ سے ملایا جاتا ہے تو اینٹی باڈیز نہیں ہونے کے سب اس میں رد عمل ہوتا ہے اور تب پتہ چلتا ہے کہ یہ خون بامبے گروپ ہے۔

اس خون کے گروپ کے لوگوں کو کس قسم کی احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر انوبھو نے اس بابت بتایا:

تمام لوگوں کو سب سے پہلے اپنے خون کے گروپ کا علم ہونا چاہیے۔

اگر بامبے بلڈ گروپ ہے تو پھر اپنا نام سینٹرل بلڈ رجسٹری میں درج کرائیں تاکہ بوقت ضرورت آپ سے مدد لی جا سکے اور آپ کی مدد کی جا سکے۔

اسی کے ساتھ اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے خون کی بھی جانچ کرائیں کیونکہ جینیاتی ہے تو ان میں بھی ہو سکتا ہے۔

یہ خون چونکہ نایاب ہے اس لیے اسے زیادہ دنوں تک محفوظ رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

[pullquote]’بامبے’ نام کیونکر پڑا؟[/pullquote]

تمام خون کے گروپ انگریزی حروف تہجی اے، بی، اے بی اور او کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن یہ گروپ ایک شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔

در اصل سب سے پہلے اس کی دریافت انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت بمبئی یا بامبے (فی الحال ممبئی) میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر وائي ایم بھینڈے نے سنہ 1952 میں اسے دریافت کیا تھا۔

اب بھی اس گروپ کے زیادہ تر لوگ ممبئی میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ اس کا نسل در نسل منتقل ہونا ہے۔ بہر حال نقل مکانی کے سبب اب اس گروپ کے لوگ پورے ملک میں ملتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے