کیا گھریلو ٹوٹکوں سے زکام کا علاج ممکن ہے؟

دنیا میں کچھ تجربات ایسے ہوتے ہیں جس کا سامنا تقریباً ہر کسی کو ہو سکتا ہے جیسا کہ زکام ہونا۔ تقریباً 200 قسم کے وائرس اس بیماری کی وجہ بنتے ہیں، اور اس کے سدباب کے لیے تقریباً اتنے ہی گھریلو ٹوٹکے موجود ہیں۔

لیکن کیا یہ واقعی کارگر ثابت ہوتے ہیں؟

کسی بھی گھریلو ٹوٹکے میں بنیادی خیال یہ پایا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔

جب وائرس ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے تو اس کا سامنا دو قسم کی دفاعی نظام سے ہوتا ہے: قدرتی مدافعتی نظام حملہ آور خلیوں کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ انکولی نظام ان جسم کے ان مخصوص مرض زدہ حصوں کو نشانہ بناتا اور نئے میموری سیلز تخلیق کرتا ہے کہ اگرچہ وہ دوبارہ آئیں تو جسم ان سے نبرد آزما ہو سکے۔

یہی وجہ ہے کہ لاکڑا کاکڑا یا چکن پاکس صرف ایک ہی بار ہوتا ہے جبکہ عام نزلہ زکام بار بار، جو ایک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتے ہی اپنی ہئیت تبدیل کر لیتے ہیں، جس سے ہمارے میموری سیلز کنفیوز ہو جاتے ہیں۔

یہ سبھی جانتے ہیں کہ ہماری اعادات و اطوار اور خوراک ہمارے مدافعتی نظام کی مضبوطی کو متاثر کرتے ہیں۔

امپیریئل کالج لندن کے ڈویژن آف انفیکشنس ڈیزیزز کے سربراہ چارلس بنگھم کہتے ہیں کہ صحت مند لوگوں میں جب وٹامن یا معدنیات کی کمی ہوتی ہے تو ہمارے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے، لہذا اگر ہم پہلے ہی نسبتاۙ بہتر خوراک لے رہے ہیں تو زکام کے توڑ والی نام نہاد خوراک سے بہت کم فرق پڑتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ میں کسی اہم غذائیت کی کمی ہے جیسا کہ وٹامن، زنک، یا آئرن تو اس مخصوص چیز کی اضافی خوراک بہت مدد گار ثابت ہوگی۔ لیکن اگر آپ متوازن خوراک لے رہے ہیں تو اس میں ایسی مزید چیزیں شامل کرنے سے آپ کو مدافعتی نظام مزید مؤثر نہیں ہوگا۔‘

[pullquote]اضافی خوراک سےعلاج[/pullquote]

تاہم تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ عام زکام کے علاج میں اس سے فرق پڑتا ہے۔

اس حوالے سے کی گئی بیشتر تحقیقات کا مرکز سپلیمینٹس یا اضافی خوراک ہیں نہ کہ صرف خوراک۔ دراصل کوئی بھی مستند تحقیق موجود نہیں ہے جس سے ظاہر ہو کہ چکن سوپ واقعی آرام پہنچاتا ہے یا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔

اسی قسم کا ایک مشہور گھریلو ٹوٹکا لہسن کا استعمال ہے تو شاید یہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق، 146 صحت مند بالغوں کو سردیوں میں 12 ہفتوں تک روزانہ لہسن یا پلیسبو (ایک بے ضرر مادہ جو دوائی کے طور پر دیا جاتا ہے) کی اضافی خوراک دی گئی۔ پلیسبو استعمال کرنے والے افراد میں سے 65 کو زکام ہوا، جس کے نتیجے میں 366 دن بیماری کے بنے جبکہ جنھوں نے لہسن کا استعمال کیا تھا ان میں سے صرف 24 کو زکام ہوا، یعنی ان کی بیماری 111 دن۔

ایک اور اضافی خوراک وٹامن سی ہے جسے لوگ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ زکام کی علامات محسوس کرنے لگتے ہیں۔

کچھ تحقیقات کے مطابق یہ بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے تاہم اتنا نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں۔

29 تحقیقات کے ایک جائزرے کے مطابق وٹامن سی کے سپلیمینٹس زکام ہونے کے خطرے کو یا اس کی علامات کی شدت کو بہت زیادہ کم نہیں کرتے۔

لیکن اس سے یہ امر بھی سامنے آیا کہ اس کے استعمال سے بچوں میں زکام کا دورانیہ 14 فیصد اور بالغوں میں اس کا دورانیہ آٹھ فیصد کم ہوا۔ محققین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ سپلیمینٹ بے ضرر ہے اس لیے اس کا استعمال کر کے دیکھ لینا چاہیے کہ یہ مددگار ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔

مالٹے کا رس زیادہ کم مفید ہو سکتا ہے: ایسے شواہد نہیں ملتے کہ مالٹے کا رس زکام، تکلیف دہ علامات سے بچاتا ہے یا زکام کا دورانیہ کم کر دیتا ہے۔

یونیورسٹی آف ہیلسنکی کے پبلک ہیلتھ ریسرچر اور مصنف ہیری ہیملا کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کہ اس میں سپلیمینٹس کے مقابلے میں وٹامن سی کی اتنی زیادہ مقدار نہیں ہوتی۔

امریکی محکمہ زراعت کے مطابق مالٹے کے رس کی ایک معیاری چھوٹی بوتل میں وٹامن سی کی مقدار 72 ملی گرام ہوتی ہے۔ یہ روزانہ کے لیے تجویز کردہ 40 ملی گرام مقدار سے کہیں زیادہ ہے لیکن پھر بھی بہت سے سپلیمینٹس سے کم ہے۔

پھر زنک یعنی جست بھی ہے۔ زنک کی ایک اضافی خوراک کے زکام پر اثرات کے معائنے کے ایک جائزے میں سامنے آیا کہ اس سے بہتی ہوئی اور بند ناک میں تین تہائی تک کمی واقع ہوتی ہے، اس کے علاوہ چھینکوں میں 22 فیصد کمی اور کھانسی کی شدت میں 50 فیصد تک کمی ہوتی ہے۔

اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر زکام کی علامات ظاہر ہونے کی 24 گھنٹے کے اندر 80 ملی گرام زنک کی اضافی مقدار روزانہ استعمال کی جائے تو اس سے زکام میں آفاقہ ہو سکتا ہے۔

تاہم ہیری ہیملا کا ماننا ہے کہ زکام سے مکمل طور پر صحت یاب ہونے کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے نہ کہ علامات کا دورانیہ جاننے کی، جس میں لوگ مکمل طور پر صحت یاب ہونے سے پہلے ہی تحقیق سے الگ ہوگئے، اور شدید زکام کی حالت والوں کو شامل نہ کرنے سے نتائج پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

زکام کی 199 مریضوں پر ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ جنھیں زنک کی اضافی خوراک دی گئی وہ تین گنا جلدی صحت یاب ہوئے۔

عموما سائنسدان کہتے ہیں کہ وٹامن اور معدنیات کا استعمال سپلیمینٹس کے بجائے کھانے کے ذریعے بہترین ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وٹامن سی کی زیادہ خوراک سپلیمینٹس کے‌ذریعے حاصل کرنا آسان ہے۔

لیکن ہیری ہیملا کہتے ہیں کہ زنک کے لیے اس کا الٹ ٹھیک ہے۔ زکام سے بچاؤ‌کے لیے زنک کی چوسنے والی گولیاں عام گولیوں یا زنک والی خوراک زیادہ موثر ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں زنک کے چوسنے والی گولیاں حلق میں آہستہ آہستہ گھلتی ہیں اور اس سے زنک کا اثر ہوتا ہے۔ ’ہم یہ نہیں جانتے کہ اس اثر کا بائیوکیمیکل پہلو کیا ہوتا ہے۔ لیکن تحقیقات کے مطابق زنک کی چوسنے والی گولیوں کو موثر بنانے کے لیے بڑی چوسنے والی گولیاں استعمال کی گئیں جو منہ میں 30 منٹ میں گھلتی ہیں۔ ‘

[pullquote]زکام سے آرام[/pullquote]

اس کے علاوہ ایک پیچیدگی کی جانب محققین کا رجحان نہیں رہا کہ آیا لوگوں میں کسی چیز کی کمی تھی جیسا کہ وٹامن سی یا زنک، جب انھوں نے اس کی خوراک لینا شروع کی۔

یعنی کہ زکام کے علاج کے طور پر لی گئی اضافی خوراک کچھ افراد میں دراصل ان میں پہلے سے موجود کمی کو پورا کر کرنے کا سبب بنی۔

ایک تحقیق کے مطابق ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں کہ زکام سے بچاؤ‌کے لیے ہربل ٹوٹکے کے طور پر شمالی امریکہ میں پائی جانے والی ایک جڑی بوٹی مفید ہوتی ہے، ان کے مقابلے میں اس جڑی بوٹی کے علاج پر یقین نہ کرنے والوں کے مقابلے میں کم شدت کا اور کم عرصے کے لیے زکام ہوتا ہے۔

دودھ کو عرصہ دراز تک زکام میں بلغم پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ لیکن ایک تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو سمجھتے ہیں دودھ کی وجہ سے بلغم پیدا ہوتا ہے انھیں دودھ پینے کے بعد سانس کی تکلیف کا سامنا ہوا۔

یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن سے منسلک ہیلتھ سائیکالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر فیلیسٹی بشپ کہتی ہیں کہ پلیسبو عام طور پر کلینکل ٹرائلز کے دوران ڈاکٹرز کے زیرنگرانی استعمال ہوتے ہیں، ہمارے روز مرہ کی زندگی میں گھریلو ٹوٹکوں سے بھی پلیسبو کی طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ تحقیق کے مطابق پلیسبو کی گولی کی طاقت مریضوں اور صحت کے عملے کے پیشہ ور افراد کے اعتماد کے رشتے سے آتی ہے، یعنی کوئی ایسا شخص جو خیال رکھنے والا ہو اور اعتماد کے ساتھ علاج کی پیشکش کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اور یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسا ہمارے والدین ہمارے بچپن میں ہمارے ساتھ کرتے تھے۔ رشتے کی نوعیت یہاں زیادہ اہمیت کی حامل ہے نہ کہ وہ فرد۔‘

پروفیسر بشپ کے مطابق قابل بھروسہ دوستوں اور خاندان کے افراد سے پلیسبو کے اثرات مزید موثر ہوسکتے ہیں۔

[pullquote]اچھی خبر؟[/pullquote]

یہ جانتے ہوئے کہ گھریلو ٹوٹکے بے ضرر ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ بیماری کی علامات کو ختم کر دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اوپن لیبل پلیسبوز، جب ایک ڈاکٹر اپنے مریض کو بتایا کہ ہے یہ بے ضرر ہے تو کچھ لوگوں پر اس کا اثر ہوتا ہے، اور وہ بہتر ہوسکتے ہیں۔‘

آرام پہنچانے کا ایک اور ذریعہ خوراک ہو سکتی ہے۔ ماہر خوراک سارا شینکر کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر چکن سوپ کھانے سے کسی کو زکام میں کچھ بہتری محسوس ہو سکتی ہے۔

اس کے بجائے کہ ہم وٹامن سی کا کتنا ذخیرہ جمع کرتے ہیں سردیوں میں بیماری سے بچنے کا انحصار افرادی طور پر مختلف ہوتا ہے، جس میں ہمارا پلیسبوز پر کتنا یقین ہے کا عنصر بھی شامل ہے، لیکن اس کی وجہ ہمارے جینز ہیں۔

’کچھ لوگوں کے جینز مخصوص بیماریوں کے لیے حساس ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ اہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے جینیاتی اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ جب کچھ لوگوں کو فلو ہوتا ہے تو انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا جبکہ کچھ کو اس کی نوعیت شدید معلوم ہوتی ہے۔ اس کا فیصلہ کسی حد تک ہمارے جینز کرتے ہیں جس کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔‘

جن لوگوں کا مدافعتی نظام صحت مند ہے، ان کے لیے موسمِ سرما میں پھیلنے والی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نقلی ادویات کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ تاہم زنک والی چند مصنوعات اور لہسن سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے