نیوٹن ٹھیک کہتا تھا…

آئزک نیوٹن بڑے فلسفی تھے ۔ وہ 25 دسمبر 1642 میں پیدا ہوئے اور مارچ 1726 میں انتقال کر گئے ۔ وہ ماہر ریاضی دان ، ماہر فلکیات تھے . وہ خود کو نیچرل فلاسفر کہتے تھے . سائینس کی دنیا میں انہیں ہمیشہ ایک موثر ترین سائینسدان کے طور پر جانا جاتا ہے. ان کا قول حوالہ بن جاتا ہے. انہیں سائینسی انقلاب کے اہم ترین لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے . ان کی پہلی کتاب ” نیچرل فلاسفی کے ریاضیاتی اصول 1687 میں شائع ہوئی جس نے کئی ایجادات میں بنیادیں فراہم کیں .

آئزک نیوٹن ایک بار اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھے کلام کر رہے تھے کہ انہوں نے کہا

“ایک بونا اگر دیو کے کندھوں پر کھڑا ہوجائے تو وہ دیو سے بھی زیادہ دور دیکھ سکتا ہے ۔”

میں نے یہ جملہ پشاور یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں نیوٹن پر لکھی گئی ایک کتاب کے پہلے صفحے پر پڑھا . مجھے اس تمثیل سے اختلاف ہوا ، میں سمجھتا تھا کہ بونا کہیں بھی چڑھ جائے ، بونا ہی رہتا ہے . ساری بلندیاں مل کر بھی بونے کی پستی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں . بونے کی خوش نصیبی ہے کہ اس کا کوئی رقیب بھی نہیں ہوتا . میں نے ڈگریوں کے انبار میں بونے دیکھے ، میں نے جبہ ودستار میں بونے دیکھے . میں نے ان بونوں کو بڑے بڑے اسٹیجوں پر چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے دیکھا اور سنا . میں نے کلاس رومز میں بونوں کو بونوں کی حوصلہ افزائی کرتے دیکھا . میں نے بونوں کو قطار اندر قطار خوش آمد میں جھکتے دیکھا . میں نے نیوٹن سے معذرت کی اور کہا کہ ” سوری نیوٹن میں آپ سے اتفاق نہیں کر سکتا ، کیونکہ میرا سوچنے کا زاویہ مختلف تھا .

اب میں نیوٹن کی تمثیل سے اتفاق کرنے لگا ہوں . نیوٹن ٹھیک کہتا تھا .

ہم علم اور فکر کے معمار نہ سہی لیکن ہم علم اور فکر کے معماروں کے کندھوں پر کھڑے ہو کر اپنی نئی راہیں بنا سکتے ہیں ۔ ان کی کندھوں کی برکت سے ہم دور تک دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ ہم اپنی زندگی کو قطرہ قطرہ ضائع کرنے کے بجائے قطرہ قطرہ قلزم بنا سکتے ہیں ۔

ہم سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن ہم اتنے سطحی ہو چکے ہیں کہ ہم نے سوچ لیا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم سے کچھ نہیں ہونے والا ، ہمارے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے ہم تاریخ کے عمل سے کٹے ہوئے وہ چھوٹے لوگ ہیں کہ جو کچھ نہیں کر سکتے ۔ ہم نے خود پر علم ، فہم ، اجتہاد کے سارے دروازے بند کر کے ہر دروازے کے باہر کنڈل مار کر ایک سانپ بٹھا دیا ہے جو ہمیں سوچنے اور سوال کرنے سے ڈراتا رہتا ہے .

ہم سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن ہم نے طے کرنا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟

آپ صرف اس ایک سوال پر ایک ہفتہ سوچیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں ۔ اپنے والدین سے پوچھیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ اپنے دوستوں اور اساتذہ سے پوچھیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ اپنا فیس بک پر ایک اسٹیٹس آپ لوڈ کریں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ چار دن مشاورت کرنے کے بعد ان پوائنٹس کی ترتیب بنائیں اور پھرا گلے تین دن دو دو گھنٹے کے لیے واک کرنا شروع کریں ۔ خود سے باتیں کریں اور ایک سوال پوچھیں کہ آپ اس معاشرے میں خود کو بہترین بنانے اور بہترین منوانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں ؟

آپ حیران ہو جائیں گے کہ ایک ہفتے میں آپ کے پاس اتنے آئیڈیاز جمع ہو جائیں گے کہ آپ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا . آپ کو کیا کرنا چاہیے ؟ اس کا انتخاب کرنا مشکل لگے گا لیکن آپ نے رکنا نہیں .

انتخاب کیسے کرنا ہے ؟ یہ میں آپ کو اگلے ہفتے بتاوں گا . آپ صرف اس ہفتے اس سوال پر کام کریں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں ؟

یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس سوال کا تعلق صرف آپ کے روزگار سے نہیں . اس کا تعلق آپ کی صلاحیت اور اثر سے بھی ہے . اگر آپ روزگار کر رہے ہیں تو تب بھی یہ سوال خود سے ضرور کریں ، یہ سوال آپ کی زندگی بدل کر رکھ دے گا . شرط صرف ایک ہے ، وہ یہ کہ صرف ایک ہفتے کے لیے سوچنا شروع کردیں اور ایک ہی چیز سوچیں کہ جو میں کیا کر رہا ہوں کیا وہ ٹھیک ہے اور اگر ٹھیک نہیں‌تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے