انسولین کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں

انسولین کے بارے میں‌ عوامی تصور میں‌ بہتری آرہی ہے۔ اب بھی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مریض‌ سے کہیں کہ آپ کو انسولین لینے کی ضرورت ہے تو وہ رونا شروع کریں۔ لیکن میں‌ دیکھ سکتی ہوں‌ کہ پچھلے پانچ سالوں‌ میں‌ آگاہی بڑھی ہے اور لوگ پہلے سے زیادہ ذیابیطس اور اس کے علاج کو سمجھنے لگے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔

ذیابیطس کے بارے میں‌ لوگ کافی عرصہ سے جانتے تھے جیسا کہ ہم پرانی ہندوستانی اور یونانی کتابوں‌ میں‌ دیکھ سکتے ہیں لیکن بیسویں‌ صدی تک غذا اور ورزش کے علاوہ کوئی ٹھوس علاج دریافت نہیں‌ ہوا تھا۔ 1921 میں‌ انسولین ایجاد ہوئی۔ ڈاکٹر بینٹنگ اور بیسٹ نے انسولین ایجاد کی۔ اس پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔ انسولین نے بہت ساری جانیں‌ بچائی ہیں۔ اس لئے اس کو مصیبت نہیں‌ بلکہ رحمت سمجھنا چاہئیے۔ پہلے زمانے میں انسولین گائے اور سؤر سے نکالی جاتی تھی لیکن آج کل صاف ستھری بنائی ہوئی انسولین دنیا بھر میں‌ دستیاب ہیں۔

کچھ مہینے پہلے سانوفی اوینٹس دوا کی کمپنی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں‌ \”ٹوجیو\” نئی انسولین کی اسپیکر بننا پسند کروں‌ گی۔ تو میں‌ نے فوراً حامی بھری۔ یہ ایک بہترین انسولین ہے اور مجھے دیگر ڈاکٹرز کو اس کے بارے میں‌ لیکچر دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس دوا کے علاوہ میں‌ نے انووکانا، بائیڈوریان، فارزیگا اور کونٹریو دوائیوں‌ پر لیکچر دئیے ہیں‌ جن کے لئیے مجھے معاوضہ دیا گیا۔ اگر قارئین یہاں‌ \”کانفلکٹ آف انٹرسٹ\” محسوس کریں‌ تو وہ یہ تحریر پڑھنا بند کر سکتے ہیں۔

[pullquote] انسولین کیا ہے؟[/pullquote]

انسولین ایک ہارمون ہے۔ ہارمون اس کیمیائی مادے کو کہتے ہیں جو جسم کے ایک حصے سے خارج ہو کر خون میں‌ سفر کر کے جسم کے دوسرے حصوں‌ پر اثرانداز ہو۔

[pullquote] انسولین کہاں‌ بنتی ہے؟[/pullquote]

انسولین لبلبے کے بیٹا خلئیے بناتے ہیں۔ ایک نارمل لبلبہ مستقل انسولین بناتا ہے جو خون میں‌ شوگر کی مقدار کو نارمل دائرے میں‌ رکھتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد جیسے جیسے خون میں‌ شوگر کی مقدار بڑھتی ہے تو اسی لحاظ سے لبلبہ بھی انسولین کی مقدار میں‌ اضافہ کرتا ہے۔ جب تک ذیابیطس نہ ہو تو یہ نارمل نظام خود ہی شوگر کو نارمل رکھتا ہے۔ لیکن ذیابیطس ہونے کے بعد دواؤں‌ کے ذریعے علاج ممکن ہے۔

[pullquote]انسولین کا کیا کام ہے اور یہ کن خلیوں‌ پر اثرانداز ہوتی ہے؟[/pullquote]

انسولین ایک چابی کی طرح خلیوں‌ کے دروازے گلوکوز کے لئیے کھولتی ہے۔ اگر کسی مریض‌میں‌ انسولین کی کمی ہو یا وہ درست طریقے سے کام نہ کرے تو خون میں‌ شوگر کی مقدار بڑھنے سے ذیابیطس ہوجاتی ہے۔

[pullquote] ذیابیطس کیا ہے؟[/pullquote]

انسولین کے نظام میں‌ خرابی کے باعث خون میں‌ شوگر کی مقدار زیادہ ہوجانے سے ذیابیطس کی بیماری ہوجاتی ہے۔ ذیابیطس ایک طویل عرصے کی پیچیدہ بیماری ہے جس میں‌ خون میں‌ شوگر کی مقدار نارمل دائرے میں‌ نہ رکھی جائے تو اس سے آنکھوں‌ کی بیماری، اندھا پن، گردے فیل ہونا، نیوروپیتھی، دل کے دورے اور فالج شامل ہیں۔

[pullquote] ذیابیطس کی کتنی اقسام ہیں؟[/pullquote]

ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں لیکن یہاں‌ پر میجر دو اقسام کا ذکر کریں‌ گے۔ پہلی قسم کی یا ٹائپ ون ذیابیطس اور دوسری قسم کی یا ٹائپ ٹو ذیابیطس۔ 90 فیصد ذیابیطس کے مریضوں‌ کو ٹائپ ٹو ذیابیطس ہوتی ہے۔ 5 سے 10 فیصد ذیابیطس کے مریضوں‌ کو ٹائپ ون ذیابیطس ہوتی ہے۔

[pullquote] ٹائپ ون ذیابیطس[/pullquote]

ٹائپ ون ذیابیطس زیادہ تر بچوں‌ کو ہوتی ہے۔ تشخیص کے وقت اوسطاً عمر 12 سال ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں‌ لبلبے کے بیٹا خلئیے انسولین بنانا بالکل بند کردیتے ہیں۔ ان مریضوں‌ کا علاج صرف انسولین سے ہی ممکن ہے۔ اگر انسولین نہ دی جائے تو تشخیص کے بعد یہ مریض‌ 12 مہینے میں‌ چل بسیں‌ گے۔

امریکہ کی ایک فیصد آبادی قانون دان ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں‌ سب سے زیادہ ہے۔ اور اس کی ایک فیصد آبادی جیل میں‌ بند ہے جو کہ اگر سوچیں‌ تو ایک نہایت بڑی تعداد ہے کیونکہ اس ملک کی پوری آبادی تین سو بیس ملین ہے۔ حالانکہ اسی کی دہائی متشدد جرائم میں‌ کمی واقع ہوئی ہے لیکن قیدیوں‌ کی تعداد بڑھی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غلامی آج بھی امریکہ میں‌ زندہ ہے اور محض اس کا نام مختلف ہے۔ لوگوں‌ کو معمولی جرائم میں‌ پکڑنا خاص کر کالے اور میکسیکن وغیرہ اور ان کو جیلوں‌ میں‌ ڈالنا اور ان اداروں‌ کو ٹیکس کے پیسے \”\”سے چلانا ایک ملین ڈالر انڈسٹری ہے جو کہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ یہاں‌ قانون دانوں‌ کا ذکر اس لئے کیا کہ اکثر مریض آتے ہیں‌ اور کہتے ہیں ٹی وی پر اشتہار آرہا تھا کہ فلاں‌ دوائی نے یہ کر دیا، وہ کر دیا اور اس پر کیس چل رہے ہیں۔ دوا کا درست استعمال ضروری ہے اور ٹی وی پر آنے والے ہر اشتہار پر یقین کرنا ٹھیک نہیں‌ ہوتا کیونکہ ان میں‌ سے اکثر کیس پیسہ حاصل کرنے کے لئیے چل رہے ہوتے ہیں۔

ایک دن ایک ڈرپ ریپ آیا اور اس نے کہا کہ نئی انفارمیشن کے مطابق انووکانا استعمال کرنے والے مریضوں‌ میں‌ فوٹ ایمپیوٹیشن یعنی کہ پیر کٹنے کی شرح‌ زیادہ دیکھی گئی۔ اگر صرف آرٹیکل کا عنوان یا نمبر دیکھیں‌ تو یہ دکھائی دے رہا ہو گا کہ ایسا ہوا لیکن کیا ہم انووکانا لے کر دشمن علاقے میں‌ جاکر اس کو پانی میں‌ ملا دیں‌ تو ہمارے دشمنوں‌ کی ٹانگیں‌ کٹنا شروع ہوجائیں‌ گی؟ نہیں‌! ہم دیکھیں گے کہ لوگوں‌ پر کچھ اثر نہیں‌ ہو رہا، کسی کی ٹانگیں‌ نہیں‌ جھڑیں۔ اسی لئے دوا کو سمجھنا ، اس کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنا، اس کا درست استعمال اور یہ بھی کہ ریسرچ کس طرح‌ کی گئی اور اس کے نتائج کو کس طرح‌ ناپا تولا گیا، وہ سمجھنا ضروری ہے۔ بائیواسٹیٹ کو سمجھنا ہر ڈاکٹر کے لئیے ضروری ہے تاکہ وہ دوا کی کمپنی کی فراہم کی ہوئی معلومات کا تنقیدی جائزہ لے سکیں کیونکہ مریضوں‌ کو درست اور افیکٹو علاج فراہم کرنا نہ صرف پیشہ ورانہ زمہ داری ہے بلکہ اخلاقی بھی۔

[pullquote] انسولین کی کیا اقسام ہیں؟[/pullquote]

انسولین تین طرح‌ کی ہیں۔ طویل عرصے کی انسولین، درمیانے عرصے کی انسولین اور چھوٹے عرصے کی انسولین۔ لمبے عرصے کی انسولین کی اقسام میں‌ گلارجین یا لینٹس، ڈیٹامر یا لیوامیر، ٹوجیو اور ٹراسیبا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کو دن میں‌ ایک دفعہ لینا کافی ہوتا ہے۔ یہ فاسٹنگ بلڈ شوگر کو نارمل دائرے میں‌ رکھنے کے لئیے استعمال کی جاتی ہیں۔ نئی نکلی ہوئی ٹوجیو اور ٹراسیبا اس سے پہلے والی انسولین کی اقسام سے بھی بہتر ہیں۔ ان کے استعمال سے ہائپوگلاسیمیا کا چانس بھی کم دیکھا گیا اور ایک دن سے دوسرے دن میں‌ بلڈ شوگر میں‌ فرق بھی کم دیکھا گیا۔

تیزی سے کام کرنے والی انسولین اس وقت لی جاتی ہے جب مریض کھانا کھانے والے ہوں۔ ان کی اقسام میں‌ ریگولر انسولین، ہیومالوگ، نووالوگ، اپیڈرا اور سانس کے ذریعے لینے والی انسولین شامل ہیں۔ تیزی سے کام کرنے والی انسولین کو اسی وقت لینا چاہئیے جب کھانا کھانے والے ہوں۔ جب کھانا نہ کھائیں‌ یا پھر سونے والے ہوں تو اس وقت یہ انسولین نہیں‌ لینی چاہئیے ورنہ ہائپوگلاسیمیا کا خطرہ ہوتا ہے۔

انسولین کی ایک ڈوز نہیں‌ ہوتی۔ ہر مریض کے لئیے مختلف ڈوز ہوتی ہے اور یہ ایک دن سے دوسرے دن مختلف بھی ہو سکتی ہے، وہ اس بات پر منحصر ہے کہ کیا کھایا اور کتنے ایکٹو رہے۔

[pullquote]کیا انسولین کام کرنا بند کردے گی؟[/pullquote]

اکثر لوگوں‌ کو یہ فکر ہوتی ہے کہ انسولین آخری راستہ ہے اور یہ کام کرنا بند کردے گی تو آگے کیا کریں‌ گے۔ کچھ دوائیں ایسا کرتی ہیں کہ کچھ عرصے بعد کام کرنا بند کردیں جیسا کہ اوسٹیوپوروسس کی پرانی دوائی کیلسی ٹونن۔ اس پروسس کو ٹیکی فائلیکسس کہتے ہیں لیکن انسولین استعمال کرنے والے مریضوں کو اس بات کی فکر کی ضرورت نہیں‌ کیونکہ انسولین میں‌ ٹیکی فائلیکسس نہیں‌ ہوتا۔

ایک اہم نقطہ جس کو سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس وقت ٹائپ ٹو ذیابیطس کی تشخیص کی جاتی ہے، لبلبے کے 80 فیصد خلئیے ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور بقایا 20 فیصد آہستہ آہستہ ختم ہوتے جاتے ہیں۔ یہ اس بیماری کا نیچرل کورس ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوائیں اب اپنا کام نہیں‌ کررہی ہیں۔ وہ کام کر رہی‌ ہیں صرف ڈوز بڑھانے کی ضرورت ہے۔

[pullquote]ذیابیطس کے علاج کے کیا مقاصد ہیں؟[/pullquote]

ذیابیطس کے علاج کا مقصد شوگر کو نارمل دائرے میں رکھنا ہے تاکہ اس کی پیچیدگیوں‌ سے بچا جاسکے۔ ہر \”\”مریض کا شوگر چیک کرنے کا شیڈول مختلف ہوتا ہے جو کہ ان کی دواؤں‌ پر منحصر ہے۔ جو مریض لمبے اور چھوٹے عرصے والی انسولین استعمال کررہے ہوں ان کو دن میں‌ تین سے چار مرتبہ چیک کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

امریکن ذیابیطس اسوسی ایشن کی گائیڈلائن کے مطابق صبح ناشتہ کرنے سے پہلے بلڈ شوگر 90 سے 130 کے درمیان ہونی چاہئیے۔ دو گھنٹے کھانا کھانے کے بعد بلڈ شوگر 180 سے کم ہونی چاہئیے۔ بلڈ شوگر 70 سے کم نہیں‌ ہونی چاہئیے۔ دواؤں کا چناؤ ہر مریض کے انفرادی حالات پر مبنی ہے۔ جن لوگوں‌ کے گردے یا جگر درست طریقے سے کام نہ کررہے ہوں‌ تو ان میں‌ دوا کی مقدار گھٹانی ہوتی ہے۔ اسی لئیے بغیر لیب، ہسٹری اور طبی معائنے کے کسی ایک مریض کو یونہی انٹرنیٹ سے محفوظ مشورہ دینا ممکن نہیں‌ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے