کئی دہائیوں سے متنازع شام میں واقع گولان کی پہاڑیوں پر بنی بستی کا نام امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر رکھا جائے گا۔ حال میں امریکی مداخلت سے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی خود مختاری کو منظوری دئیے جانے کے فیصلے و حمایت کے عوض‘ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ذریعے دئیے گئے یہ نام‘ مبارک باد پیش کرنے جیسی رفت ہے۔ ٹرمپ‘ نیتن یاہو کی اس دوستانہ حرکت سے نا صرف شام کی خود مختاری کو دھچکا لگا‘ بلکہ گلوبل سٹیج کی سفارشات کو انگوٹھا بھی دکھایا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی صدر کے ذریعے ”گولان ہائٹس‘‘ کو رسمی منظوری فراہم کرنے جیسے واقعے نے‘ پورے مغربی ایشیا میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔اس بابت تمام عرب ممالک‘ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ملکوں نے مذکورہ فیصلے کی شدید مذمت کی۔ روس‘ ایران‘ ترکی‘ شام سمیت مغربی ایشیا میں امن بحالی کے خواہاں سبھی ممالک نے اس اعلان کی مخالفت کر کے ”جوں کی توں صورت حال‘‘ کا مطالبہ کیا گیا‘ لیکن امریکی مداخلت کے سامنے عالمی رائے عامہ محض مخالفت تک ہی محدود ہو کے رہ گئی۔ دیگر مواقع پر بھی اسرائیل کو امریکی حمایت اور عالمی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔
موجودہ پس منظر میں متنازع خطے کو خود مختاری کی منظوری فراہم کرنا اور اسی خطے پر ٹرمپ کے نام کی بستی کی تعمیر کرنا تشویش ناک ہے۔ حالیہ تنازع”گولان ہائٹس‘‘ نامی پہاڑی کے تقریباً تیرہ سو مربع کلو میٹر علاقے کو لے کر ہے‘ جو1967 ء تک شام کا خطہ رہا ہے۔ ان خطوں پر1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل کا قبضہ ہو گیا تھا۔ صرف چھ دنوں تک جاری جنگ میں مصر کے تقریباًپندرہ ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ شام ‘ اسرائیل اوراردن کے بھی سینکڑوں فوجی شہید ہوئے تھے۔اس جنگ کے بعد شام کو ” گولان ہائٹس‘‘ کا تقریباً دو تہائی حصہ اسرائیل کے ہاتھوں کھونا پڑا۔یہ خطہ اسرائیل اور شام دونوں ہی ممالک کیلئے سٹرٹیجک طور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اسرائیل نے1981ء میں گولان ہائٹس قانون پاس کر کے اس خطے میں اپنے قوانین مسلط کرنے کی کوشش کی ‘جس کی پر زور مخالفت کی گئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے تجویز نمبر497کے تحت ‘اسرائیل اس انکروچمنٹ کو کمزور اور بے دخلی قرار دے چکا ۔ اقوام متحدہ ان متنازع علاقوں کو شام کا حصہ مانتا ہے۔ اس کی تجویز 242کے تحت یہ خطہ شام کا حصہ ہے اور اسرائیل کو اس خطے کے استعمال کی اجازت حاصل نہیں۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ‘جب امریکہ اور اسرائیل کی گروپ بندی سے‘ عالمی امن کے عمل میں خلل پڑا ہے۔ امریکی شہ پر اسرائیل کے ذریعے کیا گیا ہر فیصلہ جانبدارانہ اور یکطرفہ رہا ہے ۔ 2017ء کے اختتام پر امریکہ کے ذریعے اسرائیل میں واقعہ سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقل کئے جانے کا تنازع توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس کی بھر پور مخالفت کی گئی۔ اقوام متحدہ کی مخالفت کے باوجود یروشلم کو اسرائیلی دارالخلافہ کی منظوری دینا چیلنج اور جوکھم سے بھرا اقدام رہا۔نیتن یاہو مسلسل پانچویں مرتبہ اسرائیل کا وزیراعظم بن چکا ہے۔ کرپشن اور دیگر الزامات کے باوجود اسے دائیں بازو کی بھر پور حمایت حاصل ہوئی۔ ہر ایک الیکشن کی طرح اس مرتبہ بھی قومی سلامتی اور فلسطینی تنازعات کے حل جیسے وعدے کارگر ثابت ہوئے۔ ویسٹ بینک سیٹلمنٹ سے جڑے قبضے کا ایشو اہم رہا۔
الیکشن کے دوران ” گولان ہائٹس‘‘ کی منظوری دینا بھی محض انتخابی ہتھکنڈ ہ تھا۔ نیتن یاہو کے اقتدار میں واپسی کیلئے امریکہ نے اپنی دہائیوں پرانی پالیسیوں میں فوری تبدیلی کر کے‘ اسے ”انتخابی مدد‘‘ فراہم کی ۔ 2018ء میں ”نیشن سٹیٹ بل‘‘ پاس کیا گیا‘ جس کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کی تاریخی سر زمین کا اعلان کر کے صرف یہودیوں کو اپنا فیصلہ خود لینے کا حق دیا گیا۔ اس قانون کا مقصدصرف اور صرف یہودیوں کے وجود کے نظریات کا قیام کرنا تھا۔ اس قانون کے بعد عدم مساوات‘ نسل پرستی اور مذہبی تفریق جیسے حالات کا پیدا ہونا یقین تھا۔
مغربی ایشیا کی بدامنی سے نا صرف عرب ممالک‘ بلکہ پوری دنیا فکر مند ہے۔ کاغذی پر زور مخالفت ضروری ہے‘ لیکن کوئی امریکہ اوراسرائیل کوآنکھیں دکھانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔اقوام متحدہ جیسا ادارہ خاموش تماشائی کا کردار نبھا رہا ہے۔ ٹرمپ‘ نیتن یاہو کا دوستانہ سلوک دونوں ممالک کے معاشی‘ سماجی اور تہذیبی رشتوں تک درست ہے‘ لیکن اس کے غیر واجب استعمال سے کسی ملک کی خود مختاری چھین لینا کہاںکا انصاف ہے؟اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیلی مفادات کیلئے امریکہ نے سب سے زیادہ ویٹو کا استعمال کیا ۔ 1995ء میں امریکہ کی آشیرباد سے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا قانون پاس کیا گیا تھا‘ مگر مسئلے کی حساست اور اقوام متحدہ کے احکامات کے مد نظر ‘اب تک صدور کے ذریعے چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ سفارت خانہ منتقل کرنے کا ایشو تمام صدارتی امیدواروں کیلئے انتخابی موضوع رہا‘ لیکن یہودی مفاد کے سبب ٹرمپ ایسا کر گیا۔ یروشلم سفارت خانے کی منظوری اور اسرائیلیوں کیلئے بے پناہ محبت ان کا انتخابی اعلان رہا ہے۔آج ٹرمپ کی کابینہ میں یہودی ازم اہم کردار میں ہے۔ اقتدار میں آتے ہی ٹرمپ نے اسرائیل کو لے کر امریکی خارجہ پالیسیوں میں ایک کے بعد ایک تبدیلی کر کے دو ممالک کے ایجنڈے کو کمزور کیا ہے۔
عالمی سطح پر کمزور ہونے سے خانہ جنگی جیسے خدشات‘ پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسرائیل‘ فلسطین اورشام کی سرحدیں پر تشدد واقعات کیلئے سرخیوں میں رہی ہیں۔ غزہ پٹی ‘ بدامنی کی علامت بن چکی ‘ ایسے میں بھرپور عالمی مداخلت ہی امن بحالی کا واحد متبادل ہے۔ بین الاقوامی گروپ اور طبقات غصے میں ہیں‘ اس لئے امریکہ اور اسرائیل اپنی عالمی جواب دہی کے تئیں پابند عہد ہوں اور دو ممالک کے درمیان جاری امن کی کارروائی کی حفاظت کریں۔