محاوروں کی دنیا

محاورے صدیوں پر محیط تجربات اور دانائی کا عطر ہوتے ہیں۔ انسان کی فطرت کیونکہ بنیادی طور پر ایک سی ہی ہے اس لئے مختلف زبانوں کے محاوروں میں بھی گہری مماثلت ہے۔

مثلاً یہ محاورہ کہ کتے بھونکتے رہتے اور قافلے گزر جاتے ہیں یا سفر جاری رکھتے ہیں، عربی سے لے کر سنسکرت تک میں موجود ہے۔ اسی طرح ’’آسمان کے جالے سے کہیں پناہ نہیں ملتی‘‘۔ چینی زبان سے لے کر روسی زبان تک میں موجودہے۔ ’’الدراہمہ مع الدراہمہ تکسبُ‘‘ یعنی ’’پیسہ پیسے کے ساتھ کمایا جاتا ہے‘‘۔

انگریزی سے لے کر اردو اور ہندی میں بھی موجود ہے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ہو جس میں قرض اور مقروض کے متعلق ایک ہی جیسی بات نہیں کی گئی مثلاً ’’المقروض مذبُوحً‘‘ یعنی مقروض ذبح کئے ہوئے جانور کی مانند ہوتا ہے۔

اسی سے ملتے جلتے محاورے فارسی اور ہسپانوی زبانوں میں بھی ملتے ہیں۔دوسری طرف کچھ ایسے محاورے بھی ہیں جو مخصوص زبانوں کے ساتھ ہی نتھی ہیں یا ان کا ریپلیکا کم از کم میری نظر سے نہیں گزرامثلاً:’’بدصورت ترین انسانوں کی آنتیں بھی خوبصورت ترین انسانوں کی آنتوں جیسی ہوتی ہیں۔‘‘

’’کامیابی کا دارو مدار آپ کی محنت پر کم اور دوسروں کی جہالت پر زیادہ ہوتا ہے۔‘‘’’عقل مند ترین اور بے وقوف ترین بھی عشق میں مبتلا ہو جائے تو دونوں ایک جیسے ہو جاتے ہیں‘‘۔

’’انسان ہاتھیوں سے نمٹ سکتا ہے مکھیوں سے نہیں ‘‘۔’’ گدا گروں کو روٹیوں کی کمی نہیں ہوتی‘‘۔’’ ڈوم بجا وے چپنی ذات بتا دے اپنی‘‘۔’’ اوچھے کی پیت، ریت کی بھیت‘‘۔’’ ناری شرم، دولت کرم، ریا کار ی بے شرم کی‘‘۔’’ لکھتم آگے بکتم نا ہیں‘‘۔اور کیا غضب کا محاورہ ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے حالات دیکھ کر ’’ایجاد‘‘ کیا گیا کہ ’’اناج کال نہیں راج کال ہے‘‘ یعنی اس دھرتی پر اناج کا نہیں راج کا قحط ہے۔ راج جسے عام زبان میں ’’گورننس‘‘ کہتے ہیں۔

’’ بہرے آگے گائونا’’ گونگے آگے گل’’ اندھے آگے ناچنا’’ تینوں الل پلل‘‘عوام عرصۂ دراز سے بہرے حکمرانوں کو گیت سنا رہے ہیں، گونگے حکمرانوں سے گفتگو کے خواہشمند ہیں یا اندھوں کے سامنے رقص فرما رہے ہیں۔

نتیجہ الل پلل۔’’ جب آیا اس دیہہ کا انت ‘‘جیسا گدھا ہے ویسا سنت‘‘’’موت سب کو ایک سا کر دیتی ہے ‘‘’’چنے چبا لو یا بانسری بجا لو ‘‘’’ چھپر پر تو پھوس نہیں پر ڈیوڑھی میں نقارہ ہے‘‘۔

’’مچھلی کے جائے کون ترائے ‘‘”PEOPLE CHANGE AND FORGET TO TELL EACH OTHER”کیسی نازک اور شاعرانہ سی لیکن سفاکانہ حقیقت ہے کہ زندگی میں کبھی کبھی لوگ بدل جاتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو بتانا بھول جاتے ہیں کہ وہ تبدیل ہو چکے ہیں۔

نتیجہ؟ وکیل، مقدمے، گواہ، عدالتیں اور طلاقتیں۔’’ سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا‘‘اور اگر واقعی ’’زندگی کا مقصد اک بامقصد زندگی ہے‘‘ تو میں سوچتا ہوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کتنے فیصد لوگ بامقصد زندگیاں گزار رہے ہیں۔

’’بچے تمہاری نصیحت سے نہیں شخصیت سے سیکھتے ہیں‘‘’’ بہت سی چیزیں اک خاص فاصلہ سے اچھی لگتی ہیں‘‘”TREAT YOUR FRIENDS LIKE FAMILY AND YOUR FAMILY LIKE FRIENDS”’’ پڑھنا دماغی یوگا ہے‘‘ضمناً اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتا چلوں کہ ایک تازہ ترین ریسرچ کے مطابق پڑھنے کے عادی لوگوں کی زندگیوں کا دورانیہ نہ پڑھنے والوں سے لمبا ہوتا ہے۔

آج کل کے بچے کتاب سے کہیں زیادہ کمپیوٹر میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں یہ بتانا، سمجھانا چاہیے کہ ریڈنگ، مطالعہ کی عادت نہ صرف معیار زندگی میں اضافہ کرتی ہے بلکہ صحت مند طوالت کی ضمانت بھی دیتی ہے۔’’زبان اور ذہن سے نہیں،دل سے مانگی ہوئی دعا میں زیادہ اثر ہوتا ہے ‘‘۔

’’ غلطی سستی بھی ہو سکتی ہے اور مہنگی بھی لیکن ایک بات طے سمجھیں کہ غلطی کی قیمت ضرور چکانی پڑتی ہے‘‘۔’’ شروع میں سیکھا ہوا آخر تک ساتھ رہتا ہے‘‘۔’’خواب، تعبیر ملتے ہی موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے ‘‘۔”ONE MAN DOES NOT MAKE A TEAM”’’لباس کے اندر ہر کوئی عریاں ہوتا ہے ‘‘۔’’ غلطی عقل مند کے لئے تجربہ بن جاتی ہے‘‘۔

’’ اس دنیا میں کسی کے پاس بھی سب کچھ نہیں ہے‘‘۔’’پرانے خیالات کی ری سائیکلنگ بھی نئے خیالات کو جنم دے سکتی ہے ‘‘۔’’ پائوں کا سائز معلوم نہ ہوتو جوتے مت خریدو‘‘۔’’ پوری قوم مینڈک سے اون اتارنا چاہتی ہے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے