نتاشا نیول نے 21 سال کی عمر میں زندگی گزارنے کا ہنر سیکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کے بوائے فرینڈ انھیں چھوڑ کر ان کی زندگی سے چلے گئے تھے۔
نتاشا کے لیے وہ وقت ان کے اندر جاری تمام کشمکش کو ختم کرنے کا تھا۔ لیکن ان کے زخم گہرے تھے۔
جب نتاشا صرف ساڑھے تین سال کی تھیں تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی ماں نے اچانک ایک دن خود کو آگ لگالی۔ ذہنی بیماری (شیزو فرینیا) میں مبتلا ان کے والد کو ریمانڈ ہاؤس بھیج دیا گیا اور نتاشا اپنے منھ بولے والدین کے ساتھ رہنے لگیں۔
سات سال کی عمر میں ان کا ریپ کیا گیا لیکن انھوں نے اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ اس کے بعد انھیں متعدد بار جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
[pullquote]’مجھے لگتا تھا میں اس کی حقدار ہوں‘[/pullquote]
نتاشا نے بی بی سی کو بتایا: ’میرا سارا بچپن خود کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کے کرب میں گزرا۔ میں نے خود کو ہر چیز کا ذمہ دار سمجھا۔‘
’درد شاید اس طرح میری زندگی کا ایک حصہ بن گیا کہ مجھے شکار ہونے کا احساس اچھا لگنے لگا۔ مجھے لگتا تھا کہ میرے ساتھ برا ہونا ہی چاہیے۔ میں اسی کی حقدار ہوں۔‘
نتاشا اپنے جسم کے ساتھ بھی ہم آہنگ نہیں تھیں، انھیں خود پر اعتماد نہیں تھا۔ انھیں رقص میں آزادی کی کرن نظر آئی۔ اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی اور وہ بہتر طور پر اپنا اظہار کرنے لگیں۔
انھوں نے ممبئی کے ایک مقامی ڈانس سکول میں جاز، بیلے اور دیگر رقص سیکھے۔
لیکن وہ اپنے شوق کو جاری نہیں رکھ سکیں۔ گھٹنوں کی چوٹ کی وجہ سے وہ دوبارہ رقص نہیں کر سکیں۔
اسی عمر میں ڈسلیکسیا (پڑھنے لکھنے میں ذہنی پریشانی) اور بُلینگ (سکول میں ہراساں کیے جانے) کی وجہ سے انھوں نے تعلیم میں بھی اہم وقت ضائع کیا۔
کسی طرح انھوں نے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور پھر ان کی منہ بولی والدہ نے (جنھوں نے ان کی پرورش کی تھی) انھیں ٹیچر بننے کا مشورہ دیا۔ ان کی والدہ کا خیال تھا کہ نتاشا کے لیے یہ ایک محفوظ ملازمت ہوگی۔
نتاشا کا کہنا ہے کہ ان کے نئے والدین نے ہر ممکن حد تک انھیں محبت دی لیکن انھیں اس میں ہمیشہ کمی ہی نظر آتی رہی۔
وہ کہتی ہیں: ’یہ سب میری ہی سوچ تھی۔ میں کبھی کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں تھی، میں کبھی بھی اپنی بات کسی کو نہیں بتاتی تھی۔۔۔ میں کسی بھی حال میں ٹیچر بننا نہیں چاہتی تھی۔‘
[pullquote]’وقت سے بہت کچھ سیکھا‘[/pullquote]
اس کے بعد نتاشا کی زندگی میں ایک اہم موڑ آیا، ان کا بریک اپ ہوا اور اس کے ساتھ ہی ان میں تبدیلی کی خواہش پیدا ہوئی۔
نتاشا نے کہا: ’مجھے اب پتا تھا کہ میرے لیے چیزوں کا درست ہونا ضروری ہے۔‘
یہ وہ وقت تھا جب نتاشا نے ایک بڑی بات سیکھی کہ ’آپ کو اپنی ذہنی صحت کا خود ہی خیال رکھنا ہوگا کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے کام نہیں کرے گا۔‘
نتاشا کو معلوم ہوا کہ وہ خود کو مورد الزام ٹھہرانے کی ذہنیت سے نکل رہی ہیں اور اپنے جسم کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’میرے خیال سے ڈپریشن کا مطلب کسی بھی طرز عمل کی انتہا ہے۔ بعض اوقات میں اتنا کھانا کھاتی تھی کہ سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا تھا۔ بعض اوقات میں قے بھی کر دیتی تھی اور کبھی ایسا ہوتا کہ میں خود ہی بھوکی رہتی۔ کبھی کبھی میں سوتی رہتی اور کبھی میں بالکل نہیں سوتی تھی۔‘
ہندوستان میں ذہنی بیماری کو ایک کلنک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس سے دوچار افراد کی پریشانیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص کسی نہ کسی طرح کی ذہنی پریشانی کا شکار ہے اور افسردگی شدید تشویش کا باعث ہے۔
نتاشا نے کم عمری میں ہی اس کا علاج شروع کر دیا تھا، لیکن اس بار انھوں نے اپنی صحت کی بہتری کے لیے کچھ مختلف راستے اپنانے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے ایک ڈائری بنائی جس میں وہ ان چیزوں کا ذکر کرتی تھیں جو روزانہ پیش آرہی تھیں اور جس کے لیے وہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے کچھ مقاصد طے کیے۔
’میرے ڈپریشن اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ نے مجھے اس سے نکلنے کی ترغیب دی۔‘
’میں اپنے لیے روزانہ کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے کام طے کرنے لگی۔ جیسے شام کو پانچ منٹ کی سیر کے لیے اپنے بالوں میں کنگھی کرکے گھر سے نکلنا۔‘
اس نے فیصلہ کیا کہ جس دن وہ اپنے تحریر کردہ مقاصد کو پورا نہیں کرسکیں گی اس دن وہ خود کو قصوروار نہیں ٹھہرائیں گی۔
نتاشا نے کہا: ’میں اپنے آپ سے کہا کرتی تھی کہ ناکامی جرم نہیں ہے۔ میں ایک بار پھر کوشش کروں گی۔ میں خود سے محبت کرنا سیکھ رہی تھی۔‘
انھوں نے اپنی زندگی میں پیش آنے والی چیزوں سے نمٹنے کا یہ نیا طریقہ اپنایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے جب ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیسی ہوں تو میں نے کہا کہ میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟‘
’میں دوسروں سے اتنا پیار کرتی تھی کہ میں خود سے محبت کرنا بھول گئی تھی۔‘
[pullquote]’یوگا سے زندگی بہتر ہوئی‘[/pullquote]
ڈپریشن اور تناؤ پر قابو پانے کی کوشش میں نتاشا کی زندگی میں میڈیٹیشن (مراقبہ، استغراق) بہت اہم رہا۔
آہستہ آہستہ ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے انھوں نے یوگا کرنا شروع کردیا۔
وہ کہتی ہیں: ’چوٹ کے بعد میں رقص نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی کوئی ایسا کام کرسکتی ہوں جس سے جسم پر دباؤ پڑتا ہو۔ لیکن میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ دنیا بھر کی خواتین خود کو بہتر طور پر پیش کر رہی ہیں۔ اور مجھے یہ چیزیں حیرت انگیز لگیں۔‘
وہ بھی ایک قدم آگے بڑھنا اور کچھ ایسا ہی کرنا چاہتی تھیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں آسان آسنوں (ورزش) سے سانسوں پر قابو پانے کے لیے بہتر طریقے سے پرانایام (یوگا کا ایک طریقہ) سیکھنا پڑے گا۔
نتاشا نے کہا: ’یوگا سے مجھے اپنے ذہن کو مستحکم رکھنے میں مدد ملی۔ یہ عمل سست ہے لیکن اس سے میں نے جو حاصل کیا وہ حوصلہ افزا ہے۔‘
پانچ سال بعد وہ خود کو بہتر پوزیشن میں پاتی ہیں۔
نتاشا کا کہنا ہے کہ ’آج خواہ کچھ بھی ہو میں ہر صبح تھوڑی دیر کے لیے یوگا کرتی ہوں اور پھر تھوڑی دیر کے لیے مراقبہ کرتی ہوں۔‘
نتاشا کا کہنا ہے کہ اس سے انتہائی دباؤ والے دن کم تناؤ والے ہوجاتے ہیں اور انھیں اس کے ذریعے خود سے محبت کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہونے میں مدد ملتی ہے۔
نتاشا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لائیں گی اور وہ دوسروں کو یوگا ٹیچر کی حیثیت سے یوگا سکھاتی ہیں۔
نتاشا کی عمر اب 27 سال ہے۔ اب بھی ان کی زندگی میں خراب دن آتے ہیں لیکن اب انھوں نے آگے بڑھنا سیکھ لیا ہے۔
نتاشا اب یوگا ٹیچر ہیں۔ ذہنی صحت کے بارے میں شعور پیدا کرتی ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا سفر اپنے آھ کو سمجھنے سے شروع ہوا تھا۔
اپنے انسٹاگرام پروفائل پر انھوں نے لکھا: ’میرے بارے میں آپ جو کہیں گے وہ اور اس سے بھی بہت برا میں اپنے بارے میں پہلے ہی سوچ چکی ہوں۔‘
وہ اپنے 245 ہزار فالوورز کو اپنے جسم سے پیار کرنے کی تعلیم دیتی ہے اور انھیں یوگا اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ لیکن یہ ان کے لیے وہ جگہ بھی ہے جہاں وہ اپنی ذاتی زندگی، خیالات اور تجربات کے بارے میں بات کرتی ہیں۔
’اپنے ہی خیال میں میں خود کو مجرم کی طرح دیکھنا پسند کرنے لگی تھی۔ خود کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کرتی تھی اور پھر میں اسی سوچ کو برقرار رکھنا بھی چاہتی تھی۔‘
ایک انفلوئنسر کی حیثیت سے وہ سوشل میڈیا ٹرولز کا بھی نشانہ بنتی ہیں۔ کچھ انھیں ‘بد کردار’ کہتے ہیں، کچھ ’آسانی سے دستیاب خاتون‘ کہتے ہیں تو کچھ انھیں ’بدصورت‘ اور کچھ لوگ ’بیکار‘ کہتے ہیں۔
لیکن اب یہ الفاظ نتاشا کو پریشان نہیں کرتے۔ نتاشا کا کہنا ہے کہ ’میں نے زندگی کو دیکھنے کے انداز کو تبدیل کر لیا ہے اور اب میں بہتر سے بہتر کام کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘
’مجھے یہاں تک پہنچنے میں 20 سال لگے ہیں اور مجھے ابھی بھی بہت کچھ حاصل کرنا باقی ہے۔ اب میری ہر ایک سانس کے ساتھ میرے صحت بہتر ہو رہی ہے۔‘
[pullquote]#100Women کیا ہیں؟[/pullquote]
ہر سال بی بی سی پوری دنیا سے 100 موثر اور متاثر کن خواتین کی کہانیاں لاتا ہے۔
رواں سال دنیا کو بہت سارے چیلنج درپیش تھے لہذا سنہ 2019 میں بی بی سی 100 خواتین سے یہ سوال پوچھے گئے کہ ‘2030 تک مستقبل کیسا ہوگا؟’
اس فہرست میں شام کی تعمیر نو کا منصوبہ بنانے والی ماہر تعمیرات سے لیکر ناسا میں مریخ کے لیے ہیلی کاپٹر کی پراجیکٹ منیجر تک سبھی شامل ہیں۔
پورے سیزن کے دوران، ایسی خواتین سنہ 2030 میں زندگی کے بارے میں اپنی پیش گوئیاں کریں گی۔
ان میں چند ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو مافیا کا مقابلہ کرنے والی ‘پراسرار’ سیاست دان ہیں جبکہ بعض فٹبال میں مردوں کی اجارہ داری کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ وہ اپنے غیر معمولی ذاتی تجربات سے آئندہ نسلوں کے لیے راہ ہموار کر رہی ہیں۔
بشکریہ بی بی سی