ماں کے پیٹ میں بچے کو جنین کہتے ہیں ‘جب اس کا جسم تشکیل پالے اور ایک سو بیس دن کے بعد اس میں جان پڑ جائے ‘تووہ ایک ذی حیات ہے‘ اُس حمل کو ساقط کرنا قتلِ نفس ہے‘اسی طرح اگر بچہ ماں کے پیٹ میں ہے اور ماں کی صحت کمزور ہے اور اس کاروزہ رکھنا اس کے اپنے یا بچے کی زندگی کے لیے خطرے کاسبب بن سکتا ہے ‘تو اُسے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ‘یہاں تک کہ یہ رخصت بچے کے ایامِ رضاعت کے لیے بھی ہے ‘اس سے معلوم ہوا کہ اسلام بچے کی حیات وصحت کو نہایت اہمیت دیتا ہے ۔ والدین کی ذمے داری صرف یہی نہیں ہے کہ بچے کے لیے خوراک ولباس کا اہتمام کریں ‘ بلکہ اُن کے ذمے داری یہ بھی ہے کہ اُسے ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنائیں ‘ اس کو ادب سکھائیں اور اس کی تعلیم وتربیت کا انتظام کریں ۔
(1)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”کسی شخص کا اپنے بیٹے کیلئے بہترین عطیہ بہترین ادب وتربیت ہے‘‘(سنن ترمذی:1952)۔ (2)آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کو بہترین ادب سکھائو‘‘(سنن ابن ماجہ:3671)۔ آج کل ماں باپ نے اپنی ذمے داری فقط یہ سمجھ رکھی ہے کہ اولاد کی مادّی فرمائشیں پوری کریں ‘ جائز وناجائز کی تمیز کے بغیر انہیں راحتیں پہنچائیں اور اُن کے لیے ڈھیروں مال چھوڑ کر جائیں ۔رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:جس طرح والد کا اولاد پر حق ہے ‘کیا اولاد کا بھی والد پر حق ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اولاد کا والد پر یہ حق ہے کہ اُسے لکھنا سکھائے ‘ تیرنا سکھائے اوراچھا ادب سکھائے‘‘ (شعب الایمان:8298)۔ تیر اندازی ‘ تیراکی ‘ گھڑ سواری اور شکار وغیرہ‘ اُس زمانے کی ضروریات میں سے تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو‘ اس کا نام اچھا رکھے‘ جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرے اور اگر اس کی شادی نہیں کرتا (اور وہ اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے )تو اس کا وبال باپ پر بھی آئے گا‘‘(شعب الایمان للبیہقی:۸۲۹۹)۔بہت سے لوگ اولاد کے رویے سے تنگ آکر ان کے لیے بددعائیں کرنے لگ جاتے ہیں ‘ ایسے موقع پر صبر کرنا چاہیے ‘ان کی اصلاح اور ہدایت کے لیے مسلسل دعا کرتے رہنا چاہیے ‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی ذات ‘ اپنی اولاد اور اپنے مالوں کے لیے بد دعا نہ کرو ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ساعتِ قبولیت ہو (اور پھر تم پچھتاتے پھرو)‘‘ (صحیح مسلم:3009)۔ اولاد کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش آنا چاہیے ‘حدیث پاک میں ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن کا بوسا لیا ‘وہاں اقرع بن حابس تمیمی بیٹھے ہوئے تھے‘ انہوں نے کہا: میرے دس بیٹے ہیںاور میں نے کبھی کسی کا بوسا نہیں لیا‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: جو رحم نہیں کرتا ‘ اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘ (الادب المفرد:91)۔
ایسی مثالیں آج بھی بکثرت مل جاتی ہیں کہ والدین مشقت اٹھاتے ہیں ‘تکلیفیں جھیلتے ہیں ‘ بھوک اور سردی برداشت کرتے ہیں؛ حتیٰ الامکان اولاد کو راحت پہنچاتے ہیں ‘ حدیث پاک میں ہے: ”(دو بچوں کو اٹھائے ) ایک سائلہ عورت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی ‘ انہوں نے اسے تین کھجوریں دیں ‘ اس نے دو بچوں کو ایک ایک کھجور دی اور ایک اپنے لیے رکھ لی ‘بچوں نے اپنے حصے کی کھجوریں کھالیں اور ماں کی طرف دیکھا‘ تو ماں نے اس کھجور کے بھی دو حصے کرکے دونوں بچوں کو دے دیں‘ جب نبی ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے یہ ماجرا بیان کیا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہارے لیے یہ تعجب کا باعث نہیں کہ ان بچوں پر رحم کرنے کی وجہ سے اللہ نے اس پر رحم فرمایا‘‘ (الادب المفرد:89)۔یعنی ماں کا یہ مثالی ایثار اُس کے لیے نزولِ رحمتِ باری اور نجات کا سبب بن گیا‘ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”(اپنی نیک کمائی سے)جو تم خود کھائو وہ صدقہ ہے‘جواپنے بچوں کو کھلائو وہ بھی صدقہ ہے‘ جو اپنی بیوی کو کھلائو وہ بھی صدقہ ہے اور جو اپنے خادم کو کھلائو‘ وہ بھی صدقہ ہے‘‘ (الادب المفرد:82)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” مجھے دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں ‘ (پاک دامن اور اطاعت گزار )عورتیں ‘ خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ‘‘ (سنن نسائی:3939)۔آپ نماز میں بعض اوقات اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپ کے پائوں مبارک پر ورم آجاتا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے چادر لپیٹنے والے ! آپ رات کو نماز میں قیام کیا کریں‘ مگر تھوڑا‘ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کیا کریں (اور اگر اس سے آپ کے ذوقِ عبادت کی تسکین نہ ہوتو)اس پر کچھ اضافہ کردیں اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ‘‘ (المزمل:1-4)۔ مزید فرمایا: ”بے شک آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ( کبھی)دوتہائی رات کے قریب قیام کرتے ہیں اور (کبھی) آدھی رات تک اور (کبھی) ایک تہائی رات تک اور( صحابہ کی) ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ ہوتی ہے ‘‘ (المزمل:20)۔
حدیث پاک میں ہے :”آپ ﷺ (اتنی طویل )نماز پڑھتے کہ آپ کے قدمین مبارک سوج جاتے‘‘(سنن ابن ماجہ:1420)۔ پس نماز جو رسول اللہ ﷺ کے نزدیک محبوب ترین چیز ہے ‘ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ‘ آپ نماز میں اتنے محو ہوجاتے کہ آپ کے پائوں مبارک سوج جاتے ‘لیکن نماز کی حالت میں بھی آپ بچوں اور بچوں کی مائوں کے جذبات کی پاسداری فرماتے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:”میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں ‘ میرا دل چاہتا ہے کہ لمبی نماز پڑھوں کہ میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوںاور نماز کو مختصر کردیتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں پر گراں گزرے گا اور یہ بات مجھے پسند نہیں ہے ‘‘ (صحیح البخاری: 707)۔ اگر کسی کا بچہ ہمارے بدن یا لباس پر پیشاب کرلے تو ہم طیش میں آجاتے ہیں ‘ لیکن ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں: ”گھٹی دینے کے لیے نبیؐ نے ایک بچے کواپنی گود میں رکھا تو اس بچے نے پیشاب کردیا ‘ آپ ﷺنے (کسی ناراضی کا اظہار کیے بغیر) پانی منگواکر کپڑوں پر بہادیا (اور کپڑوں کو صاف فرمادیا)‘‘ (صحیح البخاری:6002)۔
ایسا بخوشی کوئی اپنے بچے کے لیے بھی کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ رحمۃ للعالمین ﷺحسنین کریمین سے بھی ایسا ہی پیار فرماتے ‘حضرت بوہریرہ بیان کرتے ہیں: ”ہم نمازِ عشا میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ‘ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین (جو اُس وقت بچے تھے) آپ کی پیٹھ پر سوار ہوگئے ‘ جب آپ سجدے سے سر اٹھانے لگے تو نرمی کے ساتھ انہیں پیچھے سے پکڑ کر زمین پر بٹھایا ‘ دوسرے سجدے میں پھر اسی طرح ہوا یہاں تک کہ نماز مکمل ہوگئی ‘ آپﷺ نے ان دونوں کو اپنی رانوں پر بٹھایا ‘ وہ بیان کرتے ہیں: میں اٹھ کر حضور کی طرف گیا اور عرض کیا: یارسول اللہ! کیا میں ان دونوں کو چھوڑ آئوں‘ پس ایک روشنی چمکی ‘ آپ ﷺ نے اُن سے فرمایا :اپنی ماں کے پاس چلے جائو‘ اُن کے گھر میں داخل ہونے تک روشنی چمکتی رہی ‘‘(مسند احمد:10659)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچائو جس کا ایندھن آگ اور پتھر ہیں‘ ‘ (التحریم:6) اس آیتِ مبارکہ کی رو سے والدین کی ذمے داری ہے کہ اولاد کی دینی تربیت کریں اور انہیں جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیں ‘دینی تعلیمات واقدار کے مطابق ان کی تربیت کریں ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے بچے سے کہا:آئو یہ چیز لے لو ‘ پھر اُسے وہ چیز نہ دی‘ تو اس نے جھوٹ بولا ‘‘ (مسند احمد:9834)۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچے کو بہلانے اورورغلانے کے لیے بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے‘کیونکہ اس سے بچوں کی ذہنی ساخت اور تربیت پر برا اثر پڑے گا اور جھوٹ اُن کے لیے ایک قابلِ نفرت اور ناپسندیدہ قدر نہیں رہے گی۔
حضرت ثابت انس سے بیان کرتے ہیں: میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھاکہ اس دوران رسول اللہ ﷺ تشریف لائے‘ آپﷺ نے ہمیں سلام فرمایااور مجھے کسی کام سے بھیجا‘ اس کے سبب مجھے اپنی والدہ کے پاس پہنچنے میں دیر ہوگئی ‘ جب میں والدہ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے کہا: تم نے دیر کیوں لگائی‘ میں نے عرض کیا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام سے بھیجا تھا‘ والدہ نے پوچھا: کیا کام تھا‘ میں نے عرض کیا: یہ راز تھا‘ میری والدہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ کا راز کسی کے سامنے بیان نہیں کرنا ‘ انس نے کہا: واللہ! اگر مجھے بیان کرنا ہوتا تو اے ثابت! میں آپ کے سامنے بیان کرتا‘‘ (صحیح مسلم:2482)۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام کو بچپن سے تربیت دی جاتی تھی کہ کسی کا راز اِفشانہیں کرنا چاہیے ؛چنانچہ انہوں نے نہ اپنی والدہ کے سامنے اورنہ حضرت ثابت کے سامنے راز کو اِفشا کیا اور ان میں سے کسی نے اُن سے اصرار بھی نہیں کیا‘ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگلے کو مجبور کرتے ہیں کہ بتائو کیا راز ہے ‘سو بچوں کی تربیت ایک مشکل اور حساس کام ہے ‘ بچوں کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے ‘اُس پر اس کے ماں باپ اور گِردوپیش کے لوگ جو چاہیں نقش کردیں ‘لیکن پھر اس نقش کو مٹانا آسان نہیں ہوتا‘ اسی لیے بچپن کی بات کو”نقش علی الحجر‘‘یعنی پتھر پر لکیر سے تعبیر کیا جاتا ہے‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‘ پھر اُسے کے ماں باپ اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘(صحیح البخاری:1385)۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کوئی بچہ موروثی طور پر کوئی پاپ لے کر پیدا نہیں ہوتا‘ (بلکہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے) پھر ماں باپ یا خاندان یا معاشرہ اُسے سنوارتا ہے یا بگاڑتا ہے ‘ اس کی شخصیت کی تشکیل وتعمیر اور ذہنی ساخت وپرداخت اور ارتقامیں ماحول کا بڑا دخل ہوتا ہے ‘سو بچوں کو پاکیزہ ماحول عطا کرنا اور دینی تربیت دینا ماں باپ کے فرائض میں شامل ہے اور وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک اپنے ماتحت لوگوں پر نگہبان اور جوابدہ ہے‘ امام اپنی رعایا پر نگہبان اور جوابدہ ہے‘ ہر شخص اپنے اہل (بیوی بچوں) پر نگہبان اور جوابدہ ہے ‘ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان اور جوابدہ ہے ‘ خادم اپنے آقا کے مال کا نگہبان اور جوابدہ ہے ‘سنو! تم میں سے ہر ایک(کسی نہ کسی پر) نگہبان اور جوابدہ ہے‘‘ (صحیح البخاری:5188)۔