عمرانی دھرنا اورآزادی مارچ،چند اہم پہلو

”سیاسی اور عسکری قیادت” کی اختراع یا اصطلاح کے پس منظر میں پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے، حالانکہ قیادت صرف قیادت ہوتی ہے ، ریاستی قیادت ہوتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا-

پاکستان 1958-77 اور 99 میں براہ راست فوجی بغاوت کے نتیجے میں طویل ترین عرصہ تک فوج کے زیر انتظام رہا، جس عرصہ کے دوران بری فوج کے سربراہ وردی میں ملبوس سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور ملک کی عام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں الیکشن لڑتے اور لڑاتے رہے – غیر فوجی سیاسی حکومت کے دوران فوج کا انتظامیہ پر اتنا اثر رسوخ رہا کہ سیاست دان فوج کو نفسیاتی طور فوج کے بالمقابل جماعت سمجھتے رہے ، جس میں سوائے بھٹو صاحب مرحوم اور محمد خان جو نیجو مرحوم کے ، سب کی اخلاقی پوزیشن اتنی کمزور تھی کہ یہ نفسیاتی تاثر دور کر سکی نہ ہی فوج کا ملک کی سیاسی و سماجی زندگی پر اثر ختم کیا جاسکا.

ترکی کے طیب اردوان جیسے مضبوط اعصاب اور عوامی معیار پر پورا اترنے والی جیسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تاثر یا فوج کا اثر رسوخ ختم ہو سکتا ہے – اسی وجہ سے پاکستان میں کھو کھلی ” سیاسی اور فوجی قیادت ” جیسی اصطلاح وجود میں آئی ہے-

ملکی یا ریاستی قیادت صرف منتخب سیاسی قیادت ہوتی ہے – ریاستی سطح پر اس کے بالمقابل کوئی اور قیادت نہیں ہوتی- ریاستی ادارے اور ان کے سربراہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اس ریاستی قیادت کے کارپرداز اور معاون ہوتے ہیں-

آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے مولانا فضل الرحمان کے آ زادی مارچ کے پس منظر میں درست کہا کہ فوج آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے منتخب حکومت کے ساتھ ہے – یہی ریاستی قیادت ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے- آئین پاکستان کی دفعہ 245 کے تحت ”افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرکزی حکومت کی ہدایات کی تحت پاکستان کا بیرونی حملے یا جنگ کی صورت میں دفاع کرے اور قانون کے تحت درخواست پر سول حکام کی مدد کرے-”

اس دفعہ کے الفاظ اور روح پر عمل کرنا فوج کی ذمہ داری ہے – اگر اس سے باہر جائے گی تو ادارے کے نقصان سے ملکی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی – یہ سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے علاوہ فوج سے کسی اور مدد کی توقع نہ رکھے نہ ان کو کہے ، اگر ایسا کرے گی تو فوج کو اپنے بالمقابل فریق تسلیم کرے گی اور اگر فوج اس سے بڑھ کے کچھ کرے گی تو لوگوں کو انہیں روکنے ٹو کنے کا آئینی حق ہے-

مولانا فضل الرحمان کی اداروں کے بارے میں شکایات کا جواب تو فوج کے ترجمان نے دے دیا اور اس پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ، اچھا ہوتا اگر یہ جواب وزیر دفاع دیتے جو وزارت دفاع کے انچارج ہوتے ہیں، جیسا کہ ہر ملک میں ہوتا ہے اور فوجی ترجمان صرف ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کی حد تک فوج کی ترجمانی کرے جو آئین کی دفعہ 245 کے تحت درج ہیں –

الیکشن 2018 سے پہلے اور بعد ، احتساب بیورو اور اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے اکثر نامور اور صف اوّل کے لیڈروں کے خلاف جو اودھم مچا رکھا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں – الزامات گرچہ صحیح ہوں ، لیکن ان کی تفتیش اور ٹرائل بھی مناسب، جائز اور معروف طریقے سے ہونا چاہیے- اس لئے جیورسٹس کہتے ہیں کہ Legality, propriety and legitimacy must coexist –

اس پس منظر میں مولانا کا کہنا بے جا نہیں تھا ، جبکہ تحریک انصاف کے لیڈروں کے خلاف اسی طرح کےالزامات میں چشم پوشی یا دانستہ مدد کی گئی ، جس کا چئیرمین نیب بیورو نے کئی نجی محفلوں میں اعتراف کیا اور اس کی ویڈیوز وائرل ہیں کہ ”اگر ان کے خلاف کاروائی شروع کی گئی تو حکومت ختم ہو جائے گی” ، حکومتیں ختم نہیں ہوتیں ، افراد بدل جاتے ہیں- یہ عمل یقینآ قابل اعتراض ہے –

مولانا فضل الرحمان سمیت ہر سیاسی جماعت کو سیاسی جلسے ، جلوس ، احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے جو وہ پر امن طور ، انتہائی نظم و ضبط، شائستگی اور حدود و قیود کے اندر رہ کے کر سکتے ہیں – تاہم حکومت کو بالجبر یرغمال بنا کر نکالنے کا حق نہ مولانا کو ہے اور نہ کسی اور کو حاصل ہے – یہ لا قانونیت اور انار کی سختی سے کچلی جانی چاہیے –

تحریک انصاف لوگوں کا مینڈیٹ لے کے آئی ہے، اس کو آئین کے مطابق حکومت کرنے کا حق ہے اور یہ صرف آئینی طریقے سے ہی ہٹائی جا سکتی ہے – اس حکومت کا دشمن اس کا اپنا لب و لہجہ ہے – تحریک انصاف کے وزیروں اور وزیر اعظم کو کنٹینر سے اُتر کر حکومت کرنا پڑے گی اور کنٹینر والا لب و لہجہ بھی بدلنا پڑے گا –

مولانا کے آزادی مارچ یا پشاور موڑ پر دھرنے کا مقابلہ اگر عمران خان کے 126 دن والے دھرنے سے کیا جائے تو پتہ جلتا ہے کہ مولانا اور ان کے ورکر کتنے مہذب، منظم اور پُرعزم ہیں – یہ قابل رشک ، قابل مبارک اور قابل تقلید سیاسی مظاہرہ ہے – مولانا نے ایک چارجڈ انبوہ کے موڈ کے مد و جزر کو ایک ماہر ملاح کی طرح قابو میں رکھا ہے – ان کا لب و لہجہ بھی زمین پر بسنے والے لوگوں کا سا لگتا ہے ، زمین سے پانچ فٹ اوپر کنٹینر والا نہیں-

مولانا سوائے عمران خان کے ، ہر سیاسی حکومت کے کل پرزہ رہے ہیں ، اس لحاظ سے وہ کوئی پسندیدہ شخصیت نہیں سمجھے جاتے – ان کا تاثر ایک موقعہ پرست کا سا رہا ہے ، لیکن اس آزادی مارچ نے ان کو ”موقعہ شناس” بنا دیا ہے، جس نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے اور حزب اختلاف کی سب جماعتوں پر سبقت لے گئے ہیں – اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو Relevant رکھنا جانتے ہیں اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ید طُولٰی رکھتے ہیں – کب بولنا چاہیے اور کب خاموش رہنا چاہیے، اس سیاسی فن کے ماہر ہیں- ان کی گفتگو اور مطالبات کی وجوہات کو کسی طور نظر انداز نہیں کرنا چاہیے-

ہر شخص اپنی مجلس میں یہی باتیں کرتا ہے جو مولانا نے بر سر بازار کی ہیں – ان کی ریلی، مجمع ، آزادی مارچ یا پشاور موڑ دھرنا خالصتآ ان کے نظریاتی ورکرز کا ہے ، وہ ایک دینی سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے ہیں- مذہبی جماعتوں کو پاکستان کے لوگوں نے کبھی ووٹ دے کے اقتدار میں نہیں لایا – جو لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں وہ ذاتی طاقت اور اپنے نظریاتی ووٹ بینک سے آتے ہیں ، لیکن یہ مذہب کے نام پراودھم ضرور مچا سکتے ہیں-

مولانا کے مارچ کا مقابلہ ماضی قریب میں ان کے ہم عصر مولانا طاہر القادری اور مولانا خادم رضوی کے لانگ مارچ اور دھرنے سے کیا جائے تو طرز تخاطب اور طرز عمل میں مولانا فضل الرحمان کو ان پر اخلاقی اور سیاسی برتری حاصل ہے-

ماضی قریب میں پاکستان میں دھرنے کی انتہا عمران خان کے دھرنے نے کی تھی- اس وقت بھی ملک کی اقتصادی حالت اور سیاسی امیج بری طرح متاثر ہوا تھا، جس کی وجہ سے چینی صدر کو دورہ ملتوی کرنا پڑا – مولانا کے مارچ کی وجہ سے کشمیر کا نیشنل اور انٹر نیشنل ایشو پس پردہ چلا گیا ، جو سب سے بڑا نقصان ہے –

عمران خان نے عملی طور لوگوں کو ٹیکس نہ دینے، بل ادا نہ کرنے، بینکوں کے ذریعہ باہر سے پیسہ نہ بھیجنے کی اپیل کر کے بغاوت پر اکسایا تھا ، مولانا نے اپنے مارچ یا دھرنے میں ایسا کچھ نہیں کیا – عمران خان کے دھرنے کے پیچھے اداروں کے ہونے کا الزام لگایا گیا تھا جس کے باوجود لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن مولانا نے اداروں پر الزام دھرا اور لو گوں کی تعداد ان گنت ہے-

دونوں کا مقصد حکومت ہٹانا تھا لیکن کوئی ہٹا سکا نہ ہی ایسا ہوگا یا ہونا چاہیے – اس سلسلے کی ابتداء عمران خان نے کی تھی جو آج مولانا کے دھرنے کے خلاف وہی دلائل دے رہا ہے جو اس وقت مولانا اور ان کے ہم نوا عمران خان کے خلاف دیتے تھے – دونوں غلط تھے اور ہیں-

انصاف اور قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ عمران خان غلط روایت ڈالنے کی اپنی غلطی کو تسلیم کریں اور مولانا اور ان کے ہم نواؤں سے مارچ اور دھرنا ختم کرنے کی اپیل کریں – اس مارچ کے شرکاء کو بھی اسی طرح آنے جانے کا خرچہ دیا جائے جس طرح مولانا رضوی کے مارچ کرنے والوں کو دیا گیا تھا اور آئندہ کے لئے سب سیاست دان اس سلسلے میں اپنا کوڈ آف کنڈکٹ بنائیں تاکہ ان کی غلطیوں کی وجہ سے عام لوگ پریشان نہ ہوں ، ملک کی سیاسی ، اقتصادی اور سماجی زندگی پر برے اثرات مرتب نہ ہوں – ملک کی ساکھ کی قیمت پر کسی کو ایسا کچھ کرنے سے باز رہنا چاہیے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے