نظامِ تعلیم اور حکمران

اک بہت پرانی بات ہےکہ نقل میں بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔گستاخی معاف ہمارے حکمرانوں کو ۶۹ برس گزر جانے کے بعد بھی سمجھ نہ آئی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج بھی یہ کھیل جاری و ساری ہے کہ اگر ہمیں سوشلزم پسند آیا تو بکریوں کی طرح اس کے پیچھے چل دیے، اگر کیپیٹلزم پسند آیا تو ماری چھلانگ اس کو پکڑ لیا۔ انگلش نظامِ تعلیم دل کو لبھایا تو اس کا کچھ حصہ نقل کیا اور اپنے نظامِ تعلیم میں شامل کر لیا۔

بات تعلیم کے میدان کی ہورہی ہے تو تو ہمارے حکمران کم عمر بچوں کو تعلیم دلوانے میں سرگرم نظر آتے ہیں مگر کیا سوچا ہے کہ ۱۰۵ہے ملین لوگ بے روزگار ان کا کیا ،کیا جائے زریعہ معاش دیا جائے یا مار دیا جائے؟

ہم بچوں کی تعلیم کے خلاف ہرگز نہیں مگر اس بات کے خلاف ہیں کہ جہاں سے یہ سسٹم نقل کیا ہے تو تھوڑی عقل سے کر لیتے اگر ترقی یافتہ ممالک کم بچوں کی تعلیم لازمی قرار دیتے ہیں تو وہ ان کی تعلیم کا پورا خرچہ بھی برداشت کرتے ہیں۔ ان کے خاندان کی کفالت بھی کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح نہیں کے کم عمر بچوں پہ تعلیم لازم کر دی مگر ان بچوں کے گھر کا چولہا جلے یا بجھے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ،کوئی جیے یا مرے کوئی غرض نہیں۔ حکمران صرف اس بات میں مصروف ہیں کے عوام کو نت نیئے پروگرامز دکھا کر بس مصروف رکھا جائے۔

ان تمام حالات میں ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟

۱۔ کوشش کے جائے کہ جنرل ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم بھی حاصل کے جائے تاکہ اگر نوکری نہیں بھی ملتی تو خود کا کوئی با عزت روزگار کا زریعہ بنایا جا سکے۔

۲۔روایتی سیاست کے خاتمے کے لیے خود آگے بڑھا جائے سیاست میں حصہ لیا جائے

۳۔ جو بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں ان کی تعلیم کا خرچہ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کی کفالت بھی کی جائے۔
تاکہ پڑھے پنجاب بڑھے پنجاب کی بجائے پڑھے پاکستان بڑھےپاکستان کے نعرے کو نی صرف نعرہ نہی بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے