’’ایوان گریہ ‘‘

’’دیوار گریہ ‘‘یہودیوں کی سب سے اہم زیارت ہے۔ یہ دنیا کے قدیم شہر یروشلم (بیت المقدس) میں واقع ہے۔ یہ دیوار یہودیوں کی اہم یادگار بھی ہے جس کے سامنے رونا ، گڑگڑانا اہل یہود کا اہم فریضہ ہے۔ یہاں ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں یہودی زائرین آکر روتے اور خود کو پیٹتے ہیں اس لئے اسے دیوار گریہ کہتے ہیں۔یہودی ربیوں کے مطابق دیوار گریہ کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام نے کی اور موجودہ دیوار گریہ اسی دیوار کی بنیاد پر قائم ہے جس کی تاریخ ہیکل سلیمانی سے جاملتی ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اس دیوار کو ہاتھ لگا کر رونے اور گڑگڑانے سے ان کی خطائیں اور گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسلئے آج تک یہودی یہاں روتے پیٹتے اور معافی طلب کرتے ہیں۔مسلمان اسے دیوار براق کہتے ہیں اور اسے مسجد اقصیٰ قرار دیتے ہیں۔ روایات کے مطابق آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے یہاں سے ہی براق پر بیٹھ کر معراج کا سفر شروع کیا اسلئے اس مقام کو براق کہتے ہیں۔

دیوار گریہ ، اس کی اہمیت و تاریخ اور اس تاریخی ومذہبی مقام سے متعلق مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اختلاف پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جائے گا۔میں ایک اور ’’دیوار گریہ‘‘ کا تذکرہ کرنے جارہا ہوں جو بظاہر کوئی دیوار تونہیں بلکہ ایک خوبصورت ایوان اور بلند و بانگ عمارت ہے۔ ا س ایوان کو ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی خوشحالی، ترقی اور ان کے جان ومال کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا لیکن یہ ایوان ان مقاصد کو حاصل کرنے کے بجائے دیوار گریہ‘‘ ثابت ہوا۔ اس ایوان میں بھی طویل عرصے سے ’’ گریہ‘‘ کا فریضہ انجام دیا جارہا ہے یروشلم کے بعد دنیا کی دوسری ’’دیوار گریہ‘‘ میرے وطن کشمیر میں بظاہر اسمبلی ’’راجیہ سبھا‘‘کے نام سے مشہور ہے لیکن چند دہائیوں سے یہ ریاستی اسمبلی کم اور’’ ایوان گریہ‘‘ زیادہ لگ رہی ہے۔

اس ایوان گریہ میں اہل کشمیر کے اہل اقتداراپنے گناہو ں ، اپنی غلطیوں ، اپنی لاچاری اور اپنی بے بسی پر گریہ کرتے ہیں۔

اس ایوان میں جس انداز اور جس طریقے سے گریہ کی جاتی ہے وہ اصل دیوار گریہ کے سامنے کی جانے والی گریہ سے تھوڑی مختلف ہے۔یہاں کے ضابطہ کے مطابق یہ فریضہ صرف قائد ایوان انجام دیتا ہے باقی ممبران خاموش رہ کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اس ایوان کے لوگوں کو اپنی غلطیوں اور گناہوں کاخود احساس نہیں ہوتا ہے اور اگر کبھی احساس ہو بھی ہو پھر بھی انہوں نے اسے عوام پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ جب اہل ایوان کے گناہ بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو قوم کی چیخ و پکار سے انہیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب وہ گناہوں میں غرق ہو گئے ہیں لہذا اب انہیں گریہ کرکے خود کی نجات تلاش کرنی ہے ۔ پھر صاحب اقتدار کے قائد اپنی کرسی پر براجمان ہوکر رسم گریہ شروع کرتا ہے۔

اس ایوان کا سنگ بنیاد مرحوم شیخ عبداللہ نے رکھا تھا مگر اس کا باقاعدہ افتتاح ان کے پوتے اور سابق وزیر اعلیٰ کشمیر عمرعبداللہ نے خوب رو رو اور گڑگڑا کے اس وقت کیا جب بھارت نے شہید افضل گورو کوہندو معاشرے کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے تختہ دارپر چڑھایا۔ اس موقع پر کشمیر کے لاچار وزیر اعلیٰ نے اپنی بے بسی پر آ نسو بہاکرقوم سے معافی طلب کی۔ یوں باقاعدہ گریہ کی رسم چلی اورآج تک قائم ہے۔ آجکل اس رسم کو موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھرپورانداز سے ادا کررہی ہیں۔ دو روز قبل انہوں نے اس کا مظاہرہ بھی کیا۔

کشمیری قوم بخوبی جانتی ہے کہ شیر کشمیر کہلانے والے شیخ عبداللہ نے جو قوم سے کھلواڑ کیا اورآج تک قوم کے لیے عذاب بننے والی غلطیاں کیں ان کا اندازہ انہیں عمر کے آخری حصے میں ہوا۔ موت کے فرشتے نے انہیں اپنی غلطیوں اور اپنی بے بسی پر ایوان میں گریہ کرنے کی فرصت تونہیں دی لیکن ان کی سوانح حیات آتش چنار آج بھی چیخ چیخ کر ماتم کر رہی ہے۔ شیخ عبداللہ کی گریہ کو ان کے لکھاری محمد یوسف ٹینگ نے جس شکل میں قوم کے سامنے رکھا وہ آج بھی کشمیریوں کو گریبان چاک کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مرحوم شیخ نے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل جوکتاب بظاہر اپنے کارنامے قلم بند کرانے کے لیے لکھوائی تھی ، وہ ہر صفحے پر ماتم کرتی نظر آتی ہے۔ شیخ عبداللہ کے بعد گریہ کی یہ ابتدائی رسم ان کے بر خردار فاروق عبداللہ نے ادا کرنا تھی لیکن ناچ گانے کے رسیلے اس قوم کے خیر خواہ نے قوم کے دکھ ، درد اور غم شراب اورڈانس کی پارٹیوں میں ٹھمکے لگا اور سریلے گیت گا کر زائل کیے۔لیکن جونہی شیخ عبداللہ کے پوتے عمرعبداللہ کو بے اختیار وزارت اعلیٰ سونپی گئی تو انہوں نے ’’رسم گریہ ‘‘ کو خوب ترقی دی۔بھارتی فوج نے عمرعبداللہ کے دور حکومت میں وادی کشمیر میں جتنا خون سڑکوں پر بہایا اتنی رسم پھلتی پھولتی گئی۔ 125 نوجوانوں اور معصوم بچوں کے قتل کے ذمہ دار وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ہر قتل کے بعد ایوان میں خود کو اور قاتلوں کو معصوم جتلانے کیلئے صفائیاں پیش کرتے رہے۔جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں کشمیری ڈاکٹر افضل گورو کو تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھایا گیا ۔اس وقت کشمیرمیں عوامی مظاہروں سے اور عالمی اداروں کی طرف سے جھنجوڑنے پر عمر عبداللہ پر شدیددباؤ آیا۔ لیکن وہ اپنے دادا سے سیاسی گُر سیکھ چکے تھے تو انہوں نے ایوان گریہ کی راہ لی۔ ایوان میں پہنچتے ہی وزیر اعلیٰ نے گریہ شروع کیا، اپنی بے بسی پر آنسو بہائے اور اپنی لاچاری پر قوم سے معافی طلب کی۔
عمر عبداللہ کا دور ختم ہوا تو قوم یہ امید لگا بیٹھی کہ اب کشمیر میں سکون ہوگا، امن کی بہار ہوگی اور پانی کی طرح سڑکوں پر معصوموں کا خون بہنا بند ہوجائے گا۔ لیکن بدقسمت قوم کی امیدوں پراس وقت اوس پڑگئی جب مفتی سعید کی وفات کے بعد ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے اپنا منحوس قدم ایوان میں رکھا۔ قاتل کو کھلی ڈھیل مل گئی اور وادی میں پھر سے خون کی ہولی شروع ہوگئی ، ہر ہفتہ ایک جنازہ اٹھنے لگا۔ چونکہ یہ کشمیریوں کے لیے معمول تھا لہذا زیادہ رد عمل نہیں آیا۔عید کا ایک دن عوام نے کسی طرح پرسکون گزارا اوروہ اگلے دن کے سورج کا انتظار کررہے تھے کہ ان کی عید غم میں بدل گئی۔8 جولائی کو حزب المجاہدین کے ہر دلعزیر کمانڈر برہانی وانی اور ان کے دو ساتھیوں کو بھارتی فوج نے جنوبی کشمیر کے علاقے اسلام آباد میں شہید کیا۔عوام کوبرہان وانی کی شہادت کی جونہی خبر ملی تو کشمیر ابل آیا۔اس موقع پر عوام کوروکنا بھارتی سورماؤں کے لیے ناممکن تھا تو انہوں نے تمام کالے قوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے بندوقوں کے منہ کھول دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں کشمیری موت کے منہ میں چلے گئے۔ اہل اقتدارخون کی ہولی کا تماشا عودیکھ رہے تھے۔40 شہادتوں کے بعد سبز خاتون(محبوبہ مفتی) کسی بھارتی ٹی وی چینل پر نظر آئیں جہاں انہوں نے قاتلوں کے حق میں بھرپور دلائل دیئے۔ لیکن جب برہان ازم پھیل گیا اور 50 لوگ جان کی بازی ہار گئے اور عوام کی چیخ و پکار ایوانوں کے در ودیوار ہلانے لگی تب محبوبہ مجبور ہوکر ایوان گریہ کی طرف چل دوڑی۔ اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا رونا رویا۔
کشمیر کے ایوان گریہ کی خوبی یہ ہے کہ یہاں جو بھی اپنی بے بسی اور اپنی غلطیوں پر روتا اور گڑگڑاتا ہے اسے گمان ہوجاتا ہے کہ قوم نے اسے معاف کردیا۔ان کا گمان اپنی جگہ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ قوم نے انہیں کبھی معاف نہیں کیا اس کی واضح مثال مفتی سعید مرحوم کا جنازہ تھا جس میں ان کے رشتہ داروں اور پولیس اہلکاروں کے علاوہ کسی نے شرکت نہیں کی جبکہ برہان وانی شہید کے جنازے میں 5 لاکھ لوگوں نے شرکت کرکے برہان کو قوم کی امنگوں کا ہیرو ،قرار دیا۔
قوم بنی اسرائیل نے جو غلطیاں کیں ان پر یہودی آج تک خود کو پیٹے ہیں۔دیوار گریہ کے سامنے رونا، گڑگڑانا اور خود کو کوسنا اس قوم کا مقدر ہے۔اگر کشمیر کے اہل اقتدار اپنی غلطیاں دہراتے رہے تو ان کا حشر بھی مختلف نہیں ہوگا۔۔۔اللہ میری قوم کو غلامی کے اندھیروں اور ظلم وجبر کی طویل رات سے صبح آزادی نصیب کرے۔آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے