اپنی عزت بچانے کی خاطر گورنمنٹ نوکری کو خیرباد کہہ دیا

یہ الفاظ گلشن بی بی (فرضی نام)کے ہیں، جو ایک سرکاری ادارے میں ملازمہ تھی۔ انہوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو سال دفتر میں کام کیا۔ اس میں صرف میں نہیں بلکہ میرے ساتھ ایک اور خاتون بھی تھیں۔ کبھی کبھار کام زیادہ ہونے کا بہانہ کرکے ہمیں روکا جاتا تھا، چونکہ ہم خواتین ہونے کی وجہ سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتے تھے۔

’’ایک دن میرے افس کے باس نے مجھے آفر کی کہ آپ میرے ساتھ ہوٹل آئیں چائے پیتے ہیں، ساتھ آپ کی پروموشن میں کروا دوں گا، آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ،جب میں نے آفر ٹھکرا دی تو کبھی کام کے بہانے تو کبھی کسی اور بہانے بلا کر مجھے حراسان کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے میں نے نوکری ہی چھوڑ دی۔‘‘ ”

نہ صرف گلشن بی بی بلکہ کئی خواتین گورنمنٹ آفس اور پرائیوٹ ،این جی اوز میں کام کرنے والی جگہوں پر حراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں ۔

ایسی ہی ایک کہانی رخسانہ کی بھی ہے۔ انہوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بھی گورنمنٹ آفس میں کام کرتی ہیں۔”آفس کے سٹاف خواتین کی عزت نہیں کرتے، گانے گاتے سیٹیاں بجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے باتیں کرتے ہیں اور خاص کر دفتروں میں مادری زبان کا استعمال ہوتا ہے اور گالیاں دینا معمول کی بات ہے، ایسا نہیں لگتا کہ آفس میں بیٹھے ہیں بلکہ خواتین سٹاف کو نظر انداز کرتے ہیں ۔‘‘

انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ مرد حضرات آفس کے ماحول کو نظر انداز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے ساتھ لڑائی جھگڑا بھی نہیں کرسکتے نہ ہی انہیں بتا سکتے، اگر کچھ کہہ دیا جائے تو ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور ایک نہ رکنے والا بدتمیزی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مجبوراً خواتین کو ہی اپنی عزت بچانے کی خاطر چپ ہونا پڑتا ہے.

اس طرح کے واقعات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سائبر کرائم آفیسر امان یوگوئی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس سوشل میڈیا اور دیگر کرائم کے کیسسز آتے ہیں مگر ورک پلیس حراسمنٹ کے کوئی کیس اب تک نہیں آیا،کیونکہ اس کی ایک وجہ اس طرح کے کیسز کا رپورٹ نہ ہونا ہے۔

خواتین کیسز کیوں رپورٹ نہیں کرواتیں ؟ اس بارے میں سماجی و سیاسی رہنما پروین جاوید کہتی ہیں کہ خواتین جو گھروں سے نکل کر کام کرتی ہیں جو حراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں، پہلی بات وہ اپنی عزت کے ڈر سے کسی کو نہیں بتاتیں، دوسری اہم بات ایسی کوئی مستند ہیلپ لائن نہیں جہاں رپورٹ درج کروائیں۔ اور انہیں اس بات کا یقین ہو کہ ان کی عزت و نفس کو مجروح کئے بغیر اس شخص کو سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی فرد غلط کام کرنے سے پہلے دس بار سوچے مگر ایسی کوئی سہولت نہیں خواتین ممبران اسمبلی بھی صرف اپنی زاتی مفادات کی حد تک محدود ہیں، خواتین کے مسائل کے حل کیلیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کررہی جو مایوس کن ہے ۔

ہیومن رائٹس کمیشن گلگت کے کوارڈینیٹر اسرار الدین اسرار کا کہنا ہے کہ ہمارے ہیلپ لائن سسٹم میں بھی ایک آدھ ہی کیس رپورٹ ہوا ہے ، یہ واقعات رپورٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خواتین میں آگاہی نہیں اور اگر کوئی رپورٹ کرنا چاہے تو خاتون کو ہی برا سمجھا جاتا ہے اسلیے رپورٹ نہیں کرتی ہیں۔

کام کی جگہ میں حراسمنٹ کا قانون 2013 میں بنا مگر عمل درآمد اب تک نہیں ہو سکا .سب سے بڑا مسئلہ قانون کا رولز آف بیزنس نہ بنے کی وجہ سے اب تک اس پر عمل درامد نہیں ہوسکا۔ہم نے سٹیک ہولڈر کو بھی کئی دفعہ بتایا کہ ان قوانین پر عمل درآمد کیلیے کام کریں مگر اب تک یہ نہیں ہوسکا ،جس کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں۔ قوانین بنتے ہیں مگر عمل درآمد کیلیے سالوں سال لگتے ہیں۔

سوسن عزیز،ہیڈ جنڈر اینڈ سیف گارڈنگ، اے کے آر ایس پی نے اس حوالے سے بتایا کہ 2010 میں کام کی جگہ پر حراساں کرنے کا وفاقی قانون ہی گلگت بلتستان میں توسیع کیا گیا۔جسکے بعد 2013 میں گلگت بلتستان کے کلچر کو مدنظر رکھ کر ترمیم کے بعد قانون بنا ۔

یہ قانون 5 فیصد ہی اداروں میں لاگو ہوا۔ سب سے اہم وجہ عام عوام میں آگاہی کی کمی ہے اور جزا و سزا کا نظام نہیں، اگر کسی ایک کو بھی سزا ملے گی تو حراسمنٹ کے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔

یہ قانون التوا کا شکار رہا اور رولز آف بزنس 2022 میں منظور ہوا ۔ اس سال ہماری آغاخان رورل سپورٹ پروگرام اور ویمن ڈویلپمنٹ کی کوشش ہے کہ ہر سکول ہر کالج اور تمام اداروں میں اس قانون کے ضابطہ اخلاق کو آویزاں کرنے کیلیے باقاعدہ کام شروع کیا جائے گا ۔ ہمارے پاس محتسب بھی نہیں، جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے اور اس قانون کو عمل درآمد کرونے کیلیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور ٹریننگ بھی دی جائے گی تاکہ اس قانون کا نفاز ممکن ہوسکے۔

گلشن بی بی نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان میں "قانون تو بنتے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتے، خواتین جو کام کی جگہ میں حراساں ہوتی ہیں، معاشرے اور گھر والوں کی عزت کی خاطر چپ رہ کر سب سہہ لیتی ہیں، کہیں رپورٹ نہیں کرسکتی مگر اب امید ہے کہ گلگت بلتستان میں کام کرنے والی خواتین رپورٹ کریں گی اور اپنے آپ کو قانونی طریقے سے تحفظ بھی فراہم کریں گی۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے