ایک کہانی… ایک سبق!

ویک اینڈ فلموں‘ کتابوں کے لیے مخصوص ہے۔ پچھلے ہفتے ایک ڈاکومنٹری دیکھ لی اور اب تک اس کے رومانس سے نہیں نکل سکا۔ ڈیڑھ گھنٹے پر محیط یہ ڈاکومنٹری 1986ء میں امریکی سیاست میں سینیٹر بن کر داخل ہونے والے جان میکین پر بنائی گئی ہے‘ اور اس میں اُن کی پوری زندگی کو سمو دیا گیا ہے۔ جان میکین اس وقت برین کینسر سے لڑ رہے ہیں‘ اور ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ اس ڈاکومنٹری میں بل کلنٹن سے لے کر جارج بش‘ بارک اوبامہ‘ ہیلری کلنٹن‘ نائب امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر سینیٹروں اور اہم لیڈروں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کی اس ڈاکومنٹری نے میرے اندر‘ یہ یقین پیدا کیا ہے کہ انسان کو زندگی ہائی مورال گرائونڈ پر گزارنی چاہیے۔ ہائی مورال گرائونڈ پر بسر کی گئی زندگی کے آگے بڑے سے بڑا عہدہ‘ شکست اور فتح بے معنی چیزیں ہیں۔ دنیا میں ہائی مورال گرائونڈ سے بڑا اعزاز کوئی نہیں ہے۔

ویتنام جنگ میں پانچ سال تک جنگی قیدی رہنے والے جان میکین کی زندگی ایک ایسا سبق ہے‘ جو مجھے حیران کر گیا کہ ایک انسان کے اندر اتنی اخلاقی جرأت بھی ہو سکتی ہے؟ میں اس ڈاکومنٹری کی تفصیلات بتا کر آپ کے مزے کو خراب نہیں کرناچاہتا‘ تاہم دو تین چیزیں ایسی ہیں‘ جنہوں نے مجھے متاثر کیا ہے۔ اگرچہ جان میکین عراق جنگ کے حق میں تھا‘ لیکن جب عراقی قیدیوں پر امریکی فوجیوں کے تشدد کی تصویریں سامنے آئیں‘ اور جس طرح کمیٹی کی اوپن سماعت میں جان میکین نے اپنی ہی پارٹی کے سیکرٹری دفاع رمزفیلڈ کا حشر کیا‘ وہ اپنی جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ایک سین جس نے مجھ پر بہت اثر کیا‘ وہ ہے جب میکین‘ دو ہزار آٹھ میں بارک اوبامہ کے خلاف ری پبلکن کی طرف سے امریکہ کا صدارتی امیدوار بنتا ہے اور مختلف جلسوں سے خطاب کر رہا ہوتا ہے۔ انہی دنوں اوبامہ کے خلاف یہ مہم شروع ہو گئی تھی کہ اس کا باپ عرب مسلمان ہے۔ ری پبلکن کے حامی چاہتے تھے کہ عرب فیکٹر کو اوبامہ کے خلاف استعمال کرکے اسے ہرایا جائے۔ اس لائن کو لے کر ایک جگہ جب جان میکین لوگوں کے سوالات کا جواب دے رہا ہوتا ہے‘ تو ایک 75 سالہ بوڑھی عورت کہتی ہے کہ وہ اوبامہ پر بھروسہ نہیں کرتی کیونکہ وہ ایک عرب ہے۔ وہ عورت ابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ جان میکین نے آگے بڑھ کر اس سے مائیک چھین لیا۔ اور زور سے بولا: ہرگز نہیں… اوبامہ ایک شریف النفس خاندانی انسان ہے۔ وہ اچھا امریکی ہے۔ میں اس کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہوں‘ کیونکہ اس کا میرے ساتھ کچھ نظریات پر اختلاف ہے‘‘۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ جان میکین وہ الیکشن ہار گیا‘ لیکن اس نے بارک اوبامہ کی ذات کے خلاف ایک بھی لفظ سننے سے انکار کر دیا۔

برسوں بعد جب اس ڈاکومنٹری کے لیے بارک اوبامہ جان میکین کے اس غیر معمولی اشارے کے بارے میں بات کر رہا تھا‘ تو صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالف کی اس بات سے کتنا متاثر ہوا تھا۔ اسی طرح جب ری پبلکن پارٹی کے اندر جان میکین سے جارج بش کا مقابلہ چل رہا تھا کہ کسے امریکی صدارت کے لیے نامزد کیا جائے گا‘ تو جارج بش کے حامیوں کی طرف سے جان میکین کے خلاف ووٹرز کو فون کالز جانا شروع ہو گئیں کہ اس نے ایک خفیہ شادی کی ہوئی ہے۔ جان میکین کو کہا گیا کہ وہ بھی نیگیٹو الیکشن مہم چلائے۔ جان میکین نے ایک دفعہ پھر ایسی مہم‘ اپنے مخالفیں کے خلاف شروع کرنے سے انکار کر دیا۔ جان میکین کے خلاف ایک سکینڈل آیا کہ اس نے ایک پراپرٹی ٹائیکون کو کچھ فوائد دینے کی کوشش کی تھی‘ جو اس ریاست کے ہر سینیٹر کو فنڈ فراہم کرتا تھا۔ یعنی وہ دن‘ جان میکین کی زندگی کے بہت مشکل دن تھے‘ تاہم جس طرح جان میکین نے خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے لڑائی لڑی اور جیتی اسے سکرین پر دیکھنا اپنی جگہ ایک کمال تجربہ ہے۔

جان میکین کی ہائی مورال گرائونڈ پر کی گئی سیاست کو دیکھتے ہوئے مجھے پاکستان کی قومی اسمبلی یاد آ گئی‘ جس کا ایک سکینڈل کچھ دن پہلے میں نے اپنے پروگرام میں بریک کیا تھا‘ جس پر عمران مگھرانہ نے ریسرچ کی تھی۔ اس سکینڈل کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں ایم این ایز نے جعلی حاضریاں لگا کر لاکھوں روپے کا سیشن الائونس جیبوں میں ڈال لیا تھا۔ اس سکینڈل کا انکشاف اس وقت ہوا جب اکیس مئی کو قومی اسمبلی میں اس وقت کورم پورا نہ تھا اور دو گھنٹے انتظار کے بعد سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ کورم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہاؤس میں کم از کم 86 ایم این ایز موجود ہوں۔

اس دن ہاؤس میں مطلوبہ افراد نہ تھے‘ تاہم جب ایم این ایز کے لیے اسمبلی میں رکھا گیا حاضری رجسٹر چیک کیا گیا‘ اس کے مطابق ہاؤس میں 115 افراد تھے۔ اگر ایک سو پندرہ ایم این ایز موجود تھے‘ تو پھر کورم کیسے پورا نہ تھا؟ پتہ چلا کہ جو ایم این ایز ہاؤس میں موجود نہ تھے‘ ان کی حاضری رجسٹر پر لگ چکی تھی۔ یہ کام اس لیے کیا گیا تھا کہ جو ایم این ایز ہاؤس نہ آ سکے تھے‘ وہ پانچ ہزار روپے الائونس لے سکیں۔ میں ابھی تک صدمے میں ہوں‘ کیسے ایک ایم این اے جھوٹی حاضری اس لیے لگواتا ہے کہ پانچ ہزار روپے مل جائیں۔ خود ایم این ایز ایک دوسرے کی جعلی حاضریاں لگاتے ہیں۔ ایک ایم این اے کی اوقات صرف پانچ ہزار روپے ہے؟

یہ سب سوچتے ہوئے میں اس وقت حیران رہ گیا‘ جب جان میکین کی ڈاکومنٹری وہاں تک پہنچ چکی تھی جب وہ برین ٹیومر کا آپریشن کرانے کے کچھ دن بعد فلائٹ لے کر سینیٹ میں ہیلتھ بل پر ووٹ ڈالنے پہنچ گیا۔ ڈاکٹرز نے اسے بہت منع کیالیکن وہ نہ مانا۔ ری پبلکن کا خیال تھا کہ وہ ان کا سینیٹر ہے‘ لہٰذا انہیں ہی ووٹ دے گا‘ لیکن جان میکین نے بل پر ووٹ ڈالنے سے پہلے جو تقریر کی‘ وہ سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تھی‘ تو اس نے اپنی ہی پارٹی پر بم شیل گرا دیا کہ وہ ان کے بل کو ووٹ نہیں ڈالے گا۔ اور ہنس کر بولا: ابھی میرے جن دوستوں نے میری تعریفیں کی ہیں‘ وہ یقینا اب پچھتانے کا حق رکھتے ہیں۔ جان میکین اپنے ضمیر پر اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالا اور ہاؤس سے نکل گیا۔

ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں‘ جان میکین میں بھی ہوں گی۔ اس کی زندگی میں بھی شرمندگی کے لمحات موجود ہیں۔ اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ کر اس نے دوسری شادی کر لی۔ اس کی طلاق یافتہ بیوی سے جب پوچھا گیا تو وہ بھی بولی: جان میکین کی موت اسے دکھی کر دے گی‘ تاہم وہ منظر میرے ذہن میں رک سا گیا‘ جب جان میکین واشگٹن چھوڑ کر ایریزونا اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا‘ جہاں وہ زندگی کے باقی دن گزار رہا ہے۔ ایک مطمئن انسان اور سیاستدان‘ جس نے اپنے تئیں ہائی مورال گرائونڈ پر زندگی بسر کی‘ جسے ڈاکٹرز بتانے سے کچھ ہچکچا رہے تھے کہ وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکے گا‘ لیکن اس نے اصرار کرکے پوچھا کہ کتنے دن باقی ہیں؟ سنا اور مسکرا پڑا۔

دور دور تک پہاڑوں کے درمیان واقع ایک خوبصورت فارم ہاؤس میں اپنی زندگی کے دن گزارتے ہوئے جب آپ ایک ایسے سیاستدان سے ملاقات کرتے ہیں‘ جس کی زندگی بہت کم رہ گئی ہو‘ تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ بعض لوگ موت کو قریب دیکھ کر بھی نہیں ڈرتے۔

اُن کے اندر ایک ایسا یقین پیدا ہو جاتا ہے‘ جو آپ کو حیران کر دیتا ہے۔ اس ڈاکومنٹری کے اس سین کا اثر میرے ذہن اور روح پر رہے گا کہ موت سے کچھ فاصلے پر بیٹھا ایک انسان کیسے مطمئن انداز میں اپنی بیوی اور کتے کے ساتھ فارم ہاؤس پر آخری دن گزار رہا ہے۔ ایک ایسا انسان‘ جس نے شکست قبول کر لی تھی‘ لیکن بھرپور اصرار کے باوجود اس نے بارک اوبامہ کے خلاف وہ گھٹیا حربے استعمال کرنے سے انکار کر دیا‘ جو اسے شاید امریکہ کا صدر بنوا سکتے تھے۔ امریکہ کا صدر بننے کے لیے اس نے خود کو نہیں گرایا۔ اپنے کردار اور آئیڈیاز پر کمپرومائز نہیں کیا۔ رات گئے‘ جب وہ ڈاکومنٹری ختم ہوئی‘ تو مجھے اچانک احساس ہوا کہ جس انسان اور سیاستدان نے ہائی مورال گرائونڈ پر زندگی بسر کی اور سیاست کی ہو‘ اس کے لیے جہاں اس کے سیاسی مخالفین باتیں کرتے کرتے آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ وہیں موت بھی ایسے انسان کا احترام کرنے پر مجبور ہوتی ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے