وزراء ،سیکرٹری، ڈی جی اوقاف کے نام

میرے مخاطب چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزراء اوقاف، سیکرٹری اوقاف، ڈی جی اوقاف ہیں۔ صوفیاء فلسفہ و حکمت سے نہ صرف گہرا شغف رکھتے، بلکہ اس کے داعی تھے ،انہوں نے سوسائٹی کو اعلیٰ معیار پر قائم ودائم رکھنے کے لئے رجال کاری کی ایسی منصبی ذمہ داری پوری کی، جس کی وجہ سے ا سلامی فصل کی لہلہاتے سرسبز کھیت آج بھی ہرے بھرے ہیں۔

ان درویشوں نے راجوں، مہاراجوں، بادشاہوں اور نوابوں کو ایسا ٹھیک کیا، جن کی نسلیں آج بھی اسلام پر قائم ہیں۔

ہماری غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں سے خانقاہیں اور مزارات بانجھ اور بے فیض نہیں ہوسکتے، ہاں صاحب مزار کی توجہ ہم پر کم ضرور ہوسکتی ہے، پنجاب میں 540مزارات محکمہ اوقاف کی تحویل میں ہیں، جن کی آمدن دو ارب ہے، یہ واحد ادارہ ہے جو اپنا بجٹ خود بناتا ہے، لیکن یہ دو ارب اولیاء کی فکر پر خرچ نہیں ہورہا، جس طرح صوبائی حکومتیں باقی محکموں میں بجٹ بناتی ہیں، ایسے ہی محکمہ اوقاف کے ملازمین اور جملہ اخراجات کے لئے بجٹ مختص کرناچاہیے، اولیاء کرام کے مزارات کی آمدن کو فکراولیاء پر ہی خرچ کیا جائے، جو عشاقان اولیاء مزار کے چندہ بکس میں پیسے ڈالتے ہیں، وہ گورنمنٹ کے دیگر شعبہ جات کے لئے بکس میں پیسے نہیں ڈالتے، بلکہ اولیاء کرام کی سوچ وفکر اور ترویج واشاعت کے لئے اپنا معمولی نذرانہ پیش کرتے ہیں، نہ کہ اسٹاف کی تنخواہ کے لئے۔

مزارات کی بڑھتی ہوئی آمدن سے خوبصورت مساجد، جدید مدارس، ڈسپنسریاں، لائبریریاں قائم کریں، مساجد میں فجر درس قرآن، ظہر درس حدیث، عصر درس سنت ﷺ،مغرب درس تصوف اورعشاء درس آئین پاکستان کو یقینی بنائیں، اوقاف کی مساجد میں معیاری خطبات جمعہ کا سلسلہ شروع کیا جائے، ایک ہی موضوع پرتمام خطیب حضرات کو جمعہ پڑھانے کا پابند بنایا جائے اور اس کے لیے جدید خطبات جمعہ لکھ کر پیش کیے جائیں۔ ہر عرس پر صاحب مزار کے حوالے سے لٹریچر شائع کیاجائے ،سوشل میڈیا پر ویڈیو جاری کی جائے، اوقاف اعلیٰ معیار کی ایسی ویب سائٹس بنائے، جس میں جملہ تمام مزارات کے حوالے سے تفصیل موجود ہو، ویب ٹی وی بنایا جائے ،بلکہ چاروں صوبوں کے وزراء اوقاف کو آپس میں ملکرغیر کمرشل ’’تصوف ٹی وی‘‘ بنانا چاہیے، معیاری میگزین بڑی درگاہوں سے شروع کئے جائیں،

سیدنا داتاعلی ہجویریؒ، فرید الدین گنج شکرؒ، سلطان باہوؒ، سیدنا عثمان مروندیؒ، شاہ رکن عالمؒ، عبداللہ شاہ غازیؒ، پیر آف گولڑہ و علی پور سیداں کے اعراس کے موقع پر بیرون ممالک میں اعراس کی تشہیر کی جائے، مثلاً داتا علی ہجویریؒ کے عرس کے موقع اور عام دنوں کے لئے بیرون دنیا سے لوگوں کو مدعو کرنے کا بندوبست کیا جائے، تو میرے خیال میں ضلع لاہور کو چلانے کے لئے سال بھر کا ٹیکس مل سکتا ہے۔ اس کے لئے بیرون ممالک میں مقیم عشاقان اولیاء سے جہاں رابطہ کو مضبوط کرنے کی پالیسی اختیار کریں،

وہی شعبہ ثقافت اور بیرون ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں، کونسل خانوں کو رابطہ میں لیں، پی آئی اے اور نجی ائیرلائن سے خصوصی معاہدے کیے جائیں، پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں ہر روز اعراس کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اگر خصوصی فلائٹ چلائی جائیں، تو میرے خیال میں اولیاء کرام کی برکت سے پی آئی اے بہت جلد خسارے سے نکل سکتی ہے۔ بعض بڑے علماء کرام محکمہ اوقاف کی مساجد کو ذاتی پراپرٹی سمجھتے ہیں اور ریٹائرڈ ہونے کے باوجود بھی مساجد کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے،

اس کیلئے خصوصی حکمت عملی بنائیں، تاکہ بے روزگار علماء کرام کو ایسی مساجد میں تعینات کیا جاسکے، کچھ ایسے بھی خطیب، امام، موذن اور خادمین ہیں، جو مہینہ میں صرف ایک دن بلکہ ایک دن میں بھی ایک سے دو گھنٹے دیتے ہیں اور وہ بھی صرف تنخواہ کی وصولی کے لئے، ایسے غیر شرعی امور رواں رکھنے والے امام وخطیب حضرات کی ضد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے، آئینی وشرعی طاقت سے کارروائی کریں، ہر عرس کے موقع پر اہل قلم، فکرودانش کو مدعو کیا جائے، جس سے مثبت پیغام لوگوں تک جاسکے، جیسے پچھلے سال داتا علی ہجویریؒ کے عرس کے موقع سید طاہر رضا بخاری کی مہربانی سے اہل قلم داتا علی ہجویری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔

اعراس کے موقع پر میڈیا سے خصوصی گزارش کریں کہ وہ مسجد ومزار کے اندر جاری تقریبات کو میڈیا پر کوریج دیں، ناکہ محفل کی حدود سے باہر غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکات کرنے والوں کو، تمام مزارات پر حاضری وسلام کے شرعی آداب لکھ کر آویزاں کیے جائیں، تاکہ سادہ لوح عوام کی غیر شرعی حرکات سے صاحب مزار کو تکلیف نہ ہو اورفکر اولیاء پر کسی کو تنقید کرنے کا موقع نہ ملے۔

اوقاف کی جائیداد جیسے زمین، دکانوں، پلازوں کے کرایہ جات بڑھائیں اور اس حوالے سے نئی قانون سازی کی جائے، مزارات پر ٹھیکہ جات کو مزید شفاف بنایا جائے اور جوتیوں کا ٹوکن جاری کیا جائے اور زائرین سے جو ٹوکن قیمت بنتی ہے وہی وصول کی جائے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے، ہندوستان میں مندروں کی دیکھ بھال کے لئے سیکرٹریٹ طرز کی عمارتیں قائم ہیں۔ ہندوستان میں18 فیصد حصہ مسلمان ہیں، انڈیا مزارات کی آمدن مزار کے خاندان والوں کو دے رہا ہے، اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے، تو کم از کم صاحب مزار کے نام سے منسوب اسی آمدن سے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔ انڈیا اگر ’’یوگا یونیورسٹیوں‘‘ کی جانب جا سکتا ہے، تو کیا ہم ’’تصوف یونیورسٹیوں‘‘ کا آغاز نہیں کر سکتے۔

اسکولوں اور کالجوں میں اولیاء کرام کے ناموں سے منسوب لائبریریاں بنائی جائیں اور یونیورسٹیوں میں ’’تصوف چیئرقائم‘‘ کی جائیں۔

زیادہ سے زیادہ بچوں اور بچیوں کو اولیاء کرام پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مناسب مواقع وسہولیات فراہم کی جائیں۔ زائرین کو تنگ نہ کرنے پر خصوصی توجہ دیں، محکمہ اوقاف کے افسران، علماء کرام کے اخلاص، نیک نیتی، اور اسلام پسندی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں اور اس کیلئے مخلصانہ کوشش کی بنیاد پر ٹاسک فورسز بنائی جائیں۔

محکمہ اوقاف میں آئمہ وخطیب کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ اور پروموشن کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت اپنی عزت کو بحال کرنا چاہتی ہے، تو آئیں صدر ایوب کے دور میں بہاولپور کی دینی درسگاہ جامعہ عباسیہ کو اسلامی یونیورسٹی کی جانب موڑ دیں، خواتین کو بے پردہ مزارات پر آنے سے روکیں، سیدہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’جب تک روضہ اطہر میں رسول اللہ ﷺ اور میرے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دفن تھے، میں بے پردہ اندر جاتی رہی، لیکن جب سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوئے ہیں، میں حیا کی وجہ سے چادر میں لپٹ کر جانے لگی ہوں۔‘‘

درباروں پر نالائق اورنااہل قبضہ مافیا کا احتساب کا عمل بھی شروع ہو نا چاہیے، تاکہ اولیاء کے چندوں سے ان کے اللے تللے بند ہوں، صاحبان مزار کو خوش کرکے ہم فیض حاصل کر سکتے ہیں، یہ اسی وقت ہو گا جب خرافات اور جاہلانہ غیر شرعی رسومات کو بند کریں گے۔ اولیاء کے نام سے کام شروع کیا جائے، تو برکت ہی برکت ہے، خواجہ محکم الدین سیلانی کے نام سے منسوب اور مولانا بشیر فاروق قادری کی سرپرستی میں چلنے والا سیلانی انٹرنیشنل ویلفیئر وہ واحد ادارہ ہے، جس نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے، سب سے پہلے ایک کروڑ تیس لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں دئیے ۔یہ سیلانی ہی ہے، جوروزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کودو وقت کا کھانا دے رہا ہے۔

دوسری طرف اسلام آباد محکمہ اوقاف کے مذہبی امور کے جملہ اختیارات وزارت داخلہ کے پاس ہیں، حالانکہ یہ اختیارات وزارت مذہبی کے پاس ہونے چاہیے، وزیراعظم سے کہوں گا کہ وہ اس حوالے سے مناسب وقت پر فیصلہ کریں۔ آخر میں کہنا چاہوں گا، محکمہ اوقاف جملہ تجاویز کے حوالے سے تفصیلی نشست چاہیں، تو اس کے لئے حاضر ہوں۔ آج جمعہ ہر دکھ درد کی دوا بس درود مصطفی ﷺ80بار پڑھ کر کلثوم نواز اور دیگر مرحومین کی ارواح کو ایصال ثواب کریں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے