خاشقجی کیس: سعودی عرب نے زہریلی اشیاء کے ماہر ترکی بھیجے تھے تاکہ شواہد کو مٹایا جا سکے

ترکی کے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سعودی عرب نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے بعد ایک ماہر سمیات یعنی زہریلی اشیاء اور کیمییائی اشیا کے ماہرین کو استنبول میں اپنے قونصلیٹ میں بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں موجود ثبوت مٹا دیں۔

سعودی عرب نے تسلیم کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ماہ ہلاک ہو گئے تھے تاہم اس کے بارے میں اس کا موقف بدلتا رہا ہے۔

ترک تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ جمال خاشقجی کو گلا دبا کر ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ ان کے دو بیٹوں کی طرف سے اتوار کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ساتھ انٹرویو میں اپنے والد کی میت ان کے حوالے کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔

صالح خاشقجی نے واشنگٹن میں ریکارڈ کیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت ان کی سب بڑی خواہش اپنے والد کو مدینہ کے الباقی قبرستان میں خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ دفن کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی سعودی حکام سے بات ہوئی ہے اور انھوں نے اس معاملے میں جلد کسی پیشرفت کی خواہش ظاہر کی۔

سعودی عرب کے حکمرانوں پر تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں ہلاک کیا گیا تھا جہاں وہ اپنی دوسری شادی سے پہلے ضروری کاغذی کارروائی کے لیے گئے تھے۔

[pullquote]تازہ ترین الزامات[/pullquote]

ترکی کے اعلیٰ اہلکار کی طرف سے پیر کو دیا گیا بیان ترکی کے اخْبار صباح کی ایک رپورٹ کی عکاسی کرتا ہے جس کے مطابق سعودی عرب نے مبینہ طور پر کیمیائی ماہر احمد عبد العزیز الجنوبی اور ماہر سمّیات خالد یحییٰ الزہران کو ایک وفد کا حصہ بنا کر استنبول بھیجا تا کہ وہ شواہد مٹا سکیں۔

اخبار کی رپورٹ میں الزام لگایا کہ یہ ٹیم ملک چھوڑنے سے پہلے 12 اور 17 اکتوبر کے درمیان ہر روز اس عمارت میں گئی۔

خاشقجی کی ہلاکت کے بارے میں یہ رپورٹیں اس دن سامنے آئیں جب وہ جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے پینل کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔

[pullquote]سعودی عرب کا موقف[/pullquote]

خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کے بارے میں سعودی عرب کا سرکاری موقف کئی بار تبدیل ہوا ہے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے کہا خاشقجی قونصلیٹ سے زندہ گئے تھے۔ پھر کہا گیا کہ وہ قونصلیٹ میں جھڑپ میں ہلاک ہو گئے اور اس کے بعد انہوں نے ان کی ہلاکت کے لیے ’قتل‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا۔

استنبول کے چیف پبلک پراسیکیوٹر عرفان فدان نے، جو اس مقدمے کی تفیش کر رہے ہیں، گزشتہ ہفتے خیال ظاہر کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو عمارت میں داخل ہوتے ہی ’گلا دبا کر ہلاک کر دیا گیا تھا‘ اور پھر ان لاش کے ٹکڑے کر کے ضائع کر دیا گیا۔

اب تک سعودی حکام اس قتل کے سلسلے میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کر چکے ہیں۔ ترکی چاہتا ہے کہ ان لوگوں کو ان کے حوالے کیا جائے جبکہ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ان پر ملک کے اندر ہی مقدمہ چلایا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے