سپریم کورٹ نے پاکپتن مزار اراضی کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکپتن مزار اراضی کیس میں سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی تشکیل دے دی۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 14 ہزار کنال پاکپتن مزار اراضی کیس کی سماعت کی۔

عدالت عظمیٰ نے اراضی کیس کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس کی سربراہی خالد داد لک کریں گے جب کہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا ایک ایک رکن بھی شامل ہوگا۔

عدالت نے گزشتہ سماعت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو طلب کیا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ تحقیق جےآئی ٹی سےکرائیں، ایف آئی اے یا دیگر اداروں سے جس پر نوازشریف نے کہا تھا کہ میرا جےآئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکپتن مزار اراضی کیس میں نواز شریف کو 1985 میں بطور وزیراعلیٰ ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا، ان پر بطور وزیراعلیٰ محکمہ اوقاف کی زمین واپسی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا الزام ہے

پاکپتن دربار اراضی کیس کا پس منظر

دیوان غلام قطب الدین نے 1985 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں اس حوالے سے مقدمہ دائر کیا تھا کہ پاکپتن دربار سے ملحقہ 14 ہزار کنال زمین 1969 کے ایک آرڈر کے تحت محکمہ اوقاف کو دی گئی، جبکہ یہ زمین ان کی ملکیت تھی۔

تاہم مقامی عدالت نے فیصلہ دیا کہ دربار سے ملحقہ اراضی محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے، اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ نے بھی برقرار رکھا، جس پر دیوان غلام قطب الدین اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گئے۔

ابھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہی تھا کہ مبینہ طور پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ کی جانب سے 1969 کے آرڈر کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔

جس کے بعد دیوان غلام قطب الدین نے اس اراضی کو فروخت کردیا اور وہاں دکانیں وغیرہ تعمیر کردی گئیں۔

سپریم کورٹ نے 2015 میں پاکپتن میں دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس کیس کی اب تک 14 سماعتیں ہوچکی ہیں، 2015 میں پاکپتن دربار اراضی کیس کی آٹھ، 2016 میں چار جبکہ 2017 میں کوئی سماعت نہیں ہوئی۔

رواں برس 2 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا اور 4 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر نواز شریف بھی پیش ہوئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے