’’مزاح بخیر‘‘

یہ عجیب اتفاق ہے کہ میں نے ناصر ملک کی طنز و مزاح پر مشتمل کتاب ’’مزاح بخیر‘‘ پڑھنے کیلئے کھولی تو سب سے پہلے وہ صفحہ کھلا جس کا عنوان تھا ’’پھرتے ہیں شیر خوار، کوئی پوچھتا نہیں‘‘۔ مجھے میرؔ کے مصرع کی یہ پیروڈی بہت اچھی لگی اور اس میں ہمارے آپ کے لاڈلے بچوں کا جو احوال بیان کیا گیا تھا اس نے تو اور زیادہ مزہ دیا۔ ناصر ملک نے بتایا کہ ایک دفعہ ریڈیو کا ایک لازوال کردار نظام دین بس میں سفر کر رہا تھا، اس کے ساتھ والی سیٹ پر ایک بوڑھی اماں اور ایک چھ، سات سال کا بچہ بیٹھے تھے۔ بچے کے ہاتھ میں اٹھنی تھی۔ وہ بچہ ہر اسٹاپ پر پوری قوت سے اپنی بائیں کہنی ہلاتے اور اٹھنی آگے کرتے ہوئے اپنی دادی سے چیخ کر کہتا ’’مجھے کوئی ’’چیج‘‘ (چیز) لے دو اور ہر دفعہ میری چیخ اس کی چیخ سے کہیں زیادہ بلند ہوتی کیونکہ اس کی کہنی میری پسلیوں کی حدود کی بھرپور خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی دادی تک پہنچتی تھی۔

نظام دین کے مطابق جب تیسری بار ایسا ہوا تو چوتھا اسٹاپ آنے سے پہلے میں نے اپنی جیب سے ایک اٹھنی نکال کر اس کی دادی کو دیتے ہوئے کہا ’’اماں اس کی اٹھنی میں ایک میری اٹھنی ڈال دو اور مجھے کہیں سے موت لے دے‘‘۔نظام دین میں بلا کی بذلہ سنجی تھی، ایک دن مجھے ایک ڈاکٹر کی دکان پر ملے۔ میں نے کہا ’’سنائیں نظام دین جی، کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ بولے:قاسمی صاحب! اس عمر میں جیسی گزرتی ہے ویسی ہی گزر رہی ہے‘‘۔

بس اتنا سا ہی جملہ تھا جو وہ سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے کہہ سکتے تھے، چنانچہ انہوں نے اگلی بات یہ کہی کہ آج ڈاکٹر صاحب نے مجھے مٹھی بھر گولیاں دی ہیں، میں نے کہا:ڈاکٹر صاحب اتنی گولیاں تو سائیکل میں نہیں پڑتیں جتنی آپ نے مجھے کھانے کیلئے دی ہیں۔ خیر یہ نظام دین کا قصہ تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگیا، ناصر ملک نے بات بچوں سے شروع کی تھی، تو یہ بچوں تک ہی رہنی چاہئے بلکہ اس حوالے سے میں بھی کچھ ’’لُچ‘‘ تلنا چاہتا ہوں۔ میرے بہنوئی امین بھائی جان کے ماشاء اللہ نو بیٹے تھے۔ وہ جب کبھی گھر میں آم لاتے، ایک بالٹی میں برف ڈال کر اس میں بھر دیتےاور اس خیال سے کہ بچوں کے کپڑے خراب نہ ہوں، سب کو کہہ دیا جاتا کہ وہ نیچے کچھا رہنے دیں، باقی کپڑے اتار دیں۔ ایک دن بھائی جان مرحوم بال بچوں کے ساتھ ایک دوست کی طرف مدعو تھے۔ اس نے کھانے کے بعد جونہی سامنے آم لاکر رکھے تو بچوں نے آئو دیکھا نہ تائو ایک ایک کرکے کپڑے اتارنا شروع کر دئیے اور پھر ننگ دھڑنگ آموں کی بالٹی کے گرد دائرہ بناکر بیٹھ گئے۔

چلئے اصل مینو سے پہلے یہ اسٹارٹر تو ہوگیا، اب موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پطرس بخاری، شفیق الرحمٰن، ابن انشاء اور مشتاق احمد یوسفی کے بعد بجا طور پر یہ محسوس ہوتا تھا کہ اب مزاح کا زریں دور گزر گیا اور ان کی جگہ لینے والا اب کوئی اور نہیں آئیگا۔ ابھی تک صورتحال یہی ہے، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ مزاح کی نئی پنیری اپنے پھل پھول کے ساتھ سامنے آنا شروع ہو چکی ہے بلکہ یوسفی صاحب کی موجودگی میں یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر یونس بٹ میدان میں آئے اور انہوں نے ادب میں طنز و مزاح کے سدا بہار پھول کھلائے۔ ان کے بعد جو نمایاں نام سامنے آئے ان میں گل نوخیز اختر، اشفاق احمد ورک، علی احمد رضا اور مصطفیٰ عارف کے علاوہ ناصر ملک ہیں جو آئے اور چھا گئے۔ ناصر ملک کی پہلی کتاب ہی نے مجھے چونکا دیا۔ ہر صفحے پر کوئی نہ کوئی ایسا جملہ یا واقعہ سامنے آیا کہ مجھے ہنسی بھی آئی اور کچھ سوچ میں بھی ہلچل محسوس کی، چنانچہ میں ان صفحات پر نشان لگاتا گیا، اب جب لکھنے بیٹھا تو میں نے محسوس کیا کہ بس چند ایک صفحات ہی ایسے بچے ہی جن پر میں نے نشان نہ لگایا ہو۔ ان کا مشاہدہ بہت تیز ہے، چنانچہ انہوں نے کچھ فرضی ناموں سے خاکہ نما چیزیں لکھی ہیں۔

بظاہر یہ سب کچھ فرضی لگتا ہے لیکن آپ یقین کریں میرے دوستوں میں سے بعض ان سے بھی زیادہ کمینے اور احمق ہیں جن کا احوال ناصر ملک نے لکھا ہے۔ اسی کو تو ’’صداقتِ شعری‘‘ کہتے ہیں، یعنی خواہ کوئی من گھڑت بات ہو مگر وہ آپ کو من گھڑت کے بجائے حقیقت پر مبنی محسوس ہو۔ آپ ایک سو فیصد سچا افسانہ لکھیں مگر ضروری نہیں کہ اسے افسانہ سمجھا جائے، آپ اسے آپ بیتی کہہ سکتے ہیں۔ یہی صورتحال مزاح کی بھی ہے۔ ناصر ملک ’’پُلسیا‘‘ ہے، باقاعدہ ڈی ایس پی ہے، چنانچہ میں نے اس کی کتاب پڑھتے ہوئے محسوس کیا کہ اس نے میرے پائوں زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہیں، مگر میرا تو کتاب چھوڑنے کو خود ہی جی نہیں چاہ رہا، میں ہنس بھی رہا ہوں اور زنجیروں کی چھبن بھی محسوس ہو رہی ہے۔ میں نے یہ مثال اسلئے دی ہے کہ ناصر ملک کے مزاح پارے میرے نظریہ ادب بلکہ نظریہ مزاح کے عین مطابق ہیں۔

مجھے وہ مزاح بھی عزیز ہے جو صرف ہنساتا ہو جیسے ماضی میں پطرس بخاری اور وہ مزاح بھی جو ہنسانے کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں نمی بھی بھر دے جیسے مشتاق احمد یوسفی۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ناصر ملک بیک وقت ان دونوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ یہ پیش گوئی کرتا ہوں کہ اگر ناصر ملک اسی عشق و سرمتی کے عام میں لکھتے رہے تو بالآخر اردو ادب کو ایک بہت بڑا مزاح نگار مل جائیگا جس کا نام ہم ماضی کے بڑے لکھنے والوں کے ساتھ لے سکیں گے اور ہاں میرے یار عزیر اور پاکستان کے مہذب ترین لوگوں میں سے ایک حسین شیرازی کا نام تو بھول ہی چلا تھا جن کی ’’بابو نگری‘‘ نے تہلکہ مچا رکھا ہے اور اسکے علاوہ ابرار ندیم اور عائشہ عظیم جو ابھی تک مزاح کو Easyلے رہے ہیں، تیز قدم بڑھائو میرے دوستو!

اب آخر میں ا للہ کریم سے صرف ایک دعا ہے، میری خواہش ہے کہ آپ بس دل میں آمین کہیں اور وہ یہ کہ باری تعالیٰ میں نے اس تحریر میں اپنے دوست مزاح نگاروں کے بارے میں جو سچی باتیں کی ہیں مجھے ان کا اجر عطا فرما اور اپنی رحمت کریمی سے جہاں جہاں جھوٹ بولا ہے وہ معاف کردے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے