اچھی خبر کیوں نہیں آتی ؟؟؟

دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے نام پر جو بھی کچھ ہمارے ہاں گذشتہ قریبا دودہائیوں سے ہوا ہے اس نے ہماری جانوں اورمالوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے لیکن سب سے زیادہ اس نے ہمارے یقین کو متاثرکیا اس دوران ہم اتنے سازشی نظریوں کے بیچ پلے بڑھے کہ ہم نے ہر سچ پر شک کیا اورجھوٹ تو پھر ویسے بھی جھوٹ تھا، ہم ایک دوسرے کے سامنے مرتے رہے لیکن ہم اس کو بھی شک کی نظرسے دیکھتے رہے کہ معلوم نہیں کہ حقیقت میں بھی مرا ہے یا نہیں اور اگرکوئی سچ مچ مربھی گیا ہو تو بھی اس کو شک ہی کی نظرسے دیکھتے ہیں۔

بے یقینی اورابہام کی اس کیفیت کو ہم خود نہیں پہنچے بلکہ ہمارے دشمن نے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے اور ہم کواس حالت تک لانے کے لئے اربوں کھربوں روپے لگائے ہیں تاکہ ہم جو ہورہا ہو اس کے بارے میں ہمیشہ شکوک کا شکاررہیں اوراصل حقائق سے چشم پوشی کرکے ابہام سے پُرزندگی گذاریں۔ ہمارے ہاں جنگوں کے نام پرکھیل ہوئے، ہماری نظروں کے سامنے ہیرو ولن بنے اورولن ہیروبنے۔ ہمیں روس کی افغانستان پرحملے کے وقت پاکستانی حکومت، امریکہ اوران کے اس وقت کے اتحادیوں نے بتایا کہ کسی مسلمان ملک پرحملہ ہو تو اسے بچانا جہاد ہوتا ہے اور یہ ہراس مسلمان پر فرض ہوتاہے جوتھوڑی بھی جانی یا مالی استطاعت رکھتا ہو،

پھر پاکستان کیا دنیا بھر سے خصوصا عرب جنگجو افغانستان پہنچے اوراس جنگ میں حصہ لے کر روس کوبھاگنے پرمجبورکردیا،وہ ٹکڑوں میں بٹ کرایک سپرپاور سے بہت چھوٹاسا رہ گیااوریوں دنیا میں طاقت کا توازن بگڑا اوریہ دنیا واحد سپرپاورامریکہ کے ہتھے چڑھ گئی ہمیں اس وقت روس کے بارے میں جو درس دیے گئے تھے وہ ابھی ہمارے ذہنوں میں گونج رہے تھے کہ چند ہی سال بعد وہی امریکہ اپنے پچاس سے زیادہ اتحادیوں کے ہمراہ 9/11 کے حملوں کا بدلہ لینے اسی افغانستان پرچڑھ دوڑا ابھی ہماری وہ نسل زندہ اورجوان تھی جنہیں امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے روس کے خلاف یہ سبق یاد کرائے تھے کہ مسلمان ملک پر حملہ ہوتواسے بچانا جہاد ہوتا ہے

ان لوگوں نے امریکہ سے لڑنے کے لئے افغانستان کا رخ کیا لیکن اب کی بار اسی امریکہ اورپاکستان میں اس کی اتحادی پرویز مشرف کی حکومت نے ان لوگوں کو یہ کہہ کرروک لیا کہ امریکی حملے کوویسا نہ سمجھا جائے جیسا روس نے کیا تھا بلکہ اسے امریکہ پرہونے والے حملے کے نتیجے میں انصاف پرمبنی ایک اقدام سمجھا جائے لوگوں نے بہت کہا کہ افغانستان پر روس کا حملہ اگرجارحیت تھا توامریکہ کا حملہ بھی جارحیت ہے لیکن انہیں کہا گیا کہ زیادہ سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب امریکہ نے مسلسل پاکستان پراس کی بہت ساری قربانیوں کے باوجود شکوک کا اظہار کیا اوراس کے مقابلے میں بھارت کو افغانستان میں اہمیت دیتارہاہم یہ سب دیکھتے رہے اورہمارے اور اس کے بیچ دوریاں پیدا ہوگئیں بلکہ ہم پہلے جیسے دوست نہ رہے اورحالات نے ہمیں اس کے مقابلے میں روس کے زیادہ قریب کردیا، یہ تو تھا بین الاقوامی کھیل لیکن مقامی سطح پر بھی وقتا فوقتا ایسا ہوتا رہا کہ ہم کو اپنے موقف بدلنے پڑے ایک وقت میں جب کراچی میں ضرورت پڑی تو ایم کیو ایم کو سرپربٹھایا گیا پھراس کو برا کہہ کر اس کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔

ایک باراپنے بڑے بھائی مرحوم جو پولیس آفیسرتھے کے ساتھ میڈیا کی آزادی اورساکھ پربات چیت چل رہی تھی کہنے لگے جو دکھائی دیتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے میں نے پوچھا کیسے تو بتایا کہ کراچی کے سمندر میں طوفان کی جھوٹی خبرصرف اس لئے چلائی جاتی تھی تاکہ منشیات کی کھیپوں کو لانچوں کے ذریعے وہاں سے نکالا جاسکے۔ آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ اس خبرکو چلانے کے پیسے میڈیا کو ملے تھے یا محکمہ موسمیات کو، جس کی جانب سے میڈیا کو یہ ٹکر جاری ہوا تھا۔

یہ کالم تحریر کرنے سے پہلے ایک دوست سے ملکی حالات پربات چیت چل رہی تھی کہ جب ٹی وی پر ایک ٹکرنظرسے گذرا کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان 14 جون کو روسی صدرپیوٹن کو حالات پر اعتماد میں لیں گے تو یہ ساری کہانیاں یاد آئیں پھر یہ بھی یاد آیا کہ کیسے کیسے ہم نے روس کو اورروس نے ہم کونقصان پہنچایا تھا اورآج ہم پھر بیٹھ کربات کررہے ہیں یاد آیا کہ کیسے پاکستان میں روس کے حامی ان دنوں دھماکے کرایا کرتے تھے اورپاکستان افغانستان سے روس کو بھگانے کے لئے جان لڑارہا تھا ان کی اس وقت کی لڑائیوں اورآج کل کی قربتوں اورمستقبل کی منصوبہ بندیوں کو دیکھتے ہوئے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم ایک دوسرے سے لڑرہے ہوتے ہیں تو یہ کیوں یاد نہیں رکھتے کہ کسی وقت ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات بھی کرنی پڑسکتی ہے اورہم بہت اچھے دوست بھی بن سکتے ہیں۔

پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ "صبا دپارہ د سترگولگولو زائے پریخول پکاروی”کہ مخالفت انتہا کی بھی ہو تو بھی کل کو ساتھ بیٹھنے کے لئے کچھ نہ کچھ مارجن ضرورچھوڑنا چاہیئے کہ ایک دوسرے سے نظریں ملا کرساتھ بیٹھ سکیں۔ اس لئے موجودہ دور میں حکومت ہو، فوج ہو، پی ٹی ایم ہو، سیاسی جماعتیں ہوں جو بھی ہو وہ ضروریہ یاد رکھیں کہ کسی جنگ میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اس لئے چاہے وہ جنگ لڑیں یا سیاسی مقابلہ کریں یہ ضروریاد رکھیں کہ کسی موقع پردشمن بھی دوست بن ہی جاتے ہیں ہمیں سدھار کے لئے احسان اللہ احسان نامی شخص سے بھی تو بات کرنی پڑی تھی۔اس لئے جنگ ایوان میں ہو یا میدان میں، جو بھی ہوتمام فریقین کو اس بات کا ضرورخیال رکھنا چاہیئے کہ عام آدمی کی ذہنی پریشانی اپنی آخری حدوں کو چھوچکی ہے اوراب اسے آرام کی ضرورت ہے۔لوگ ان حالات سے انتہائی تنگ ہیں اورجتنی بری خبریں وہ برداشت کرسکتے تھے وہ کرچکے ہیں اب انہیں صرف اچھی خبرچاہیئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے