جماعت اسلامی کی آخری ہچکیوں کی کہانی

[pullquote]صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان کا استعفی[/pullquote]

گزشتہ سال کے عام انتخابات کے دوران خیبر پختونخوا میں پارٹی امیدواروں کی شکست ، ایم ایم اے کے قیام کے بعد جے یو آئی کے رہنماﺅں کے ساتھ مناسب تعلق نہ رکھنے اور کارکنوں کی شکایتوں کا ملبہ، جب جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان پر گرایا گیا، تو انہوں نے پارٹی کے صوبائی امارت سے استعفی دیدیا ،تاہم پارٹی کے مرکزی شوری اور امیر سراج الحق نے ان کے استعفی کو قبول نہیں کیا ہے ، مرکزی امیر سراج الحق نے نائب امیر مولانا اسماعیل کوجماعت اسلامی خیبر پختونخوا کا قائم مقام امیر منتخب کیا ہے۔

[pullquote]جماعت اسلامی کو بدترین شکست[/pullquote]

25جولائی 2018کے انتخابات میں جماعت اسلامی کو خیبر پختونخوا میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سے صرف ایک نشست عنایت اللہ کی جیتنے میں کامیاب ہوسکی، عام انتخابات سے قبل پارٹی کی مرکزی قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ جماعت اسلامی تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں علیحدہ ہوجائے، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان ذاتی طور پر متحدہ مجلس عمل کے احیاءکے مخالف تھے، ان کا خیال تھا کہ جماعت اسلامی اتحاد کے بجائے جے یو آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کرلے ، لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی ،اسی طرح ان کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی اقتدار کے پانچ سال تحریک انصاف کے ساتھ پورے کرے، لیکن ان کی اس خواہش کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔

[pullquote] جماعت اسلامی جے یو آئی کی متحدہ مجلس عمل کا حصہ[/pullquote]

جماعت اسلامی عام انتخابات میں جے یو آئی کی متحدہ مجلس عمل کا حصہ بن گئے ،اس دوران دیر اور بونیر میں ٹکٹوں کی تقسیم پر کافی مسائل پیدا ہوئے ،جماعت اسلامی نے بونیر میں متحدہ مجلس عمل کے مقابلے میں ناصر خان اور بخت جہاں کو کھڑا کیا جس کے مقابلے میں جے یو آئی نے دیر اپر اور لوئر میں جماعت اسلامی کے مخالف اپنے امیدوار کھڑے کئے، اسی طرح قبائلی اضلاع میں ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات پیدا ہوئے اورجماعت اسلامی کو ان انتخابات میں اچھے تعلقات نہ رکھنے کے باعث ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

[pullquote]فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی [/pullquote]

جماعت اسلامی نے پارٹی کے مرکزی رہنماءاسد اللہ بھٹو کی قیادت میں ایک فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی ،جنہوں نے اپنی رپورٹ میں تمام تر ملبہ پارٹی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان پر گرا دیا، 5اکتوبر کو مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مشتاق احمد خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور واضح کیا گیا کہ انہوں نے جے یو آئی کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ نہیں رکھی ،جس کے باعث ایم ایم اے کو جماعت اسلامی کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکا ،جس پر مشتاق احمد خان نے دلبرداشتہ ہوکر پارٹی کی صوبائی عمارت سے استعفی دے دیا ، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات صہیب کاکا خیل سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ نہ ہوسکا۔

[pullquote]امیروں کے مابین سرد جنگ[/pullquote]

پارٹی کے ایک اور اہم صوبائی رہنماءنے بتایا کہ جماعت اسلامی کے مرکزی اور صوبائی امیروں کے مابین کافی عرصے سے سرد جنگ جاری تھی، صوبائی امیر مرکزی امیر کے فیصلوں کے خلاف جب بولتے تھے ،تو ان کی بات کو نظر انداز کیا جاتا تھا، اگر چہ دونوں رہنما پارٹی کے اہم جلسوں میں اکٹھے رہتے تھے ،لیکن دورن خانہ دونوں رہنماﺅں کے مابین روابط انتہائی کم تھے، پارٹی کے ایک اور اہم عہدیدار نے بتایا کہ مشتاق احمد خان پارٹی کے صاحب مطالعہ اور جدت پسند رہنماﺅں میں تھے ، اس لئے توقع کی جارہی تھی کہ اس وقت جماعت کو جس جمود کا سامنا ہے وہ انہیں توڑ کر پارٹی کو از سر نو منظم کریں گے، انہیں پارٹی کے بعض رہنماءمستقبل کا مرکزی امیر بھی کہتے تھے، ان کا مستعفی ہونا جماعت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔

[pullquote]مشتاق احمد خان کے مستعفی ہونے کی وجوہات[/pullquote]

مشتاق احمد خان مرکزی امیر سراج الحق کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے صوبائی امارت کے مسند پر بیٹھے تھے ،وہ پارٹی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے ،ایک اہم مرکزی رہنما کے مطابق انہوں نے مرکزی قائدین پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ جماعت اسلامی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کیلئے اس میں کئی تنظیمی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس کی بات کو رد کیا گیا، پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ جماعت اسلامی میں کسی قسم کے اختلافات نہیں اور نہ ہی انہیں کام سے روکا گیا ہے، تاہم مشتاق احمد خان نے سینٹ کی مصروفیات اور صحت کے مسائل کے حوالے سے مرکزی امیر سے صوبائی ذمہ داری سے فراغت کی درخواست کی تھی، جسے قبول نہیں کیا گیا تاہم جماعت اسلامی کے ایک اور اہم رہنما نے بتایا کہ فراغت کو اگر استعفی کا نام دیا جائے تو مرکزی قیادت خود تسلیم کررہی ہے کہ مشتاق احمد خان مستعفی ہوچکے ہیں اور اچانک انکی صحت کو کیا مسئلہ درپیش آیا کیونکہ مشتاق احمد خان جماعت اسلامی کے قیادت میں کافی جوان سمجھے جاتے ہیں لیکن شائد وہ عرصہ سے طاری اس جمود کا شکار ہوگئے ہیں، جس کے باعث جماعت اسلامی اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے