میں نے ماس کمیونیکیشن کیا ہے، اب کیا کروں؟

کئی دنوں سے میرے ذہن میں ایک سوال ابھر رہا ہے کہ سولہ سال کی تعلیم نے مجھے کیا دیا یا میں اس تعلیم کی بنا پر اب تک کیا کر سکا ہوں. تعلیم کا بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاشرتی ذمہ داریوں کو عین پورا کیا جائے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا جائے ۔۔لیکن کیا موجودہ نظام تعلیم اور ملک میں جاری نظام پڑھے لکھے افراد کو انکی ذمہ داریاں نبھانے کا وقت اور حالات میسر کر پا رہا ہے؟ یا کیا موجودہ حکومت یا ہمارے ملک کا نظام پڑھے لکھے افراد کو انکی صلاحیتیں استعمال کرنے کے مواقع فراہم کر پا رہی ہے؟ یا کیا پڑھے لکھے غریب عوام جن کا تعلق مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس سے ہے وہ طبقاتی نظام میں اپنی جگہ بنا پائے ہیں؟ تو ان سب سوالوں اور بلا جواز سوچ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ! جی نہیں.

ہمارے ملک میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسکی بانسری اسی کے سر یہاں چل رہے ہیں. اصل مدعا بھی سن لیجئیے میں ایک صحافی ہوں اور عنقریب شاید "تھا” ہونے جا رہا ہوں کیونکہ موجودہ حکومت جب سے آئی ہے تب سے صحافیوں اور صحافت پر عذاب جاری ہے. یعنی برطرفیاں معاشی قتل اور وغیرہ وغیرہ سبھی جانتے ہیں. اب میں ان تمام برطرف ہونے والے اپنے ورکرز کولیگز کی کہانیوں میں سے ایک کہانی بیان کرنے کی ناکام کوشش کروں گا شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات.

معاملہ یوں ہے کہ 2011 کا سال وہ تھا جب اس نے یونیورسٹی میں قدم رکھا دنیا جدت کی جانب رواں دواں تھی اور ہے. تب لینڈ لائنز سے موبائلز اور جدید فونز کا سفر تیزی سے جاری تھا اور یہ سب دیکھتے ہوئے اس نے داخلہ حاصل کرنے کی غرض سے معلوماتی کتابچہ حاصل کیا. ورک گردانی کے بعد اسکی نظر ایک نئی ڈگری کے نام پر ٹھہر گئی جسے ماس کمیونیکشن لکھا گیا تھا. یہ نام کچھ جاذب نظر تھا اور اپنے مفہوم میں ایک لامتناہی کیفیت رکھتا تھا پس اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسی ڈگری کے ذریعے اپنا مستقبل بنانے کی کوشش کرے گا ڈگری چونکہ صحافت کے معاملات کے حوالہ سے تھی اس دور میں صحافت میں بھی خوب چمک تھی .

پیپلز پارٹی کا دور حکومت رمکے رمکے 2013 کے الیکشنز میں تبدیل ہو کر ن لیگ کی جھولی میں گرا. تب تک اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ اسکا واسطہ معاشرتی مسائل ، اقربا پروری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، کرپشن وغیرہ وغیرہ کی کہانیوں سے پڑے گا دوران ڈگری ایک تو زمانہ طالب علمی کے خما رنے اسے کچھ اور سوچنے نہ دیا، دوسرا اسکے گھریلو مسائل ایسے تھے کہ وہ کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا تھا. ڈگری پوری کرنا اس لیئے بھی ضروری تھا کہ غریب ماں باپ نے روایتی انداز میں سب کچھ بیچ کر ادھار پکڑ کر اسکی تعلیم پر لگا ڈالا تھا کہ بیٹا پڑھے گا نوکری کرے گا تو یہ ادھار اور مشکل وقت کا ریلا ایک ہی بار میں گذر جائے گا اور زندگی بس خوشیوں سے بھر جائے گی. خیر چار سالہ ڈگری مکمل ہوئی اور وہ نوکری کی تلاش کے لئے ہاتھ پاوں مارنے لگا.

اس ملک کی روایت کی طرح "سرکاری نوکریاں غریب کے بچے کے لئے نہیں ہیں” والی بات جلد اسکی سمجھ میں آگئی اور وہ اپنی ہی فیلڈ یعنی صحافت کرنے کے لئے کمر کس چکا تھا. فیلڈ میں ایک ادارے نے اسے گھسنے کا موقع دیا تو پتہ چلا تعلیمی نظام کی بوسیدگی اور تعلیم کی کوالٹی برابر نہ ہونے کے باعث اسکی ڈگری صرف ردی کا ایک ٹکڑا ہے . ایک سال تک اس نے کام سیکھا ادارے میں سکھانے والوں کی چائے لایا، اے ٹی ایم کارڈ مارنا بھی سیکھا کیونکہ ایک سکھانے والے کو چند رقم درکار تھی تو اس کے کارڈ سے جیسے تیسے کر کے پہلی بار اے ٹی ایم چلا کر مطلوبہ پیسے نکلوا کر سکھانے والے کو تھمائے اور خواب بڑھایا کہ ایک دن میرا کارڈ ہو گا جس میں سے میں خود پیسے نکالوں گا.

خیر وقت گزرتا گیا اور اس نے کام سیکھ لیا.ایک سال بعد ایک چینل نے اسے بطور رپورٹر ماہانہ آٹھ ہزار کی نوکری پر رکھ لیا. اسے اسکی پہلی تنخواہ اور تعلیمی قابلیت کا تقابلی جائزہ لینے پہ اسے اپنی تضحیک سی محسوس ہوئی جس پر وہ جبر کر کے برداشت کر گیا کہ میں اس معاشرے میں اس دوغلے پن کا جواب کس سے طلب کروں گا کہ غریب کا بچہ پڑھ لکھ کر بھی غریبوں جیسے پیسے ہی کیوں کماتا ہے. بہر کیف وہ کام کرتا رہا، دن رات، مہینے سال اور تین سال بعد ایک اچھے اور نامی گرامی چینل میں رپورٹر بن گیا. اب اسکی تنخواہ قریب بائیس ہزار ہو چکی تھی جو اسکے لئے کافی تو نہ تھی پر وہ صحافت کا مطلب سمجھ چکا تھا کہ اپنی خواہشوں کو دباو سچ سچ کا نعرہ مارو عوامی مسائل دکھاؤ غریبوں کی داد رسی کرو وغیرہ وغیرہ.

مگر وہ اپنے کام کے دوران پورے معاشرے کو اپنا دشمن بنا چکا تھا اس ملک میں سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اے ٹی ایم چور جو ذہنی معذور ہے کو مار مار کے مار دیا جاتا ہے بڑے مگر مچھ اے سی میں سزائیں کاٹتے ہیں غریب کا انصاف اور امیر کے لئے انصاف اسکے گھر کی لونڈی ہے . ہر طبقے کا فرد اسکا دشمن اسلئیے بن گیا کیونکہ نہ تو وہ رشوت لے رہا تھا نہ کسی کو بلیک میل کر رہا تھا اسی بائیس ہزار میں وہ سکرین پہ اچھا دکھنے کے سستے برانڈڈ کپڑے خریدتا ہے گھر بار چلانے کو یعنی ماں باپ کو دکھانے کو کہ انکا بیٹا بہت نہیں تو ٹھیک کما رہا ہے اپنی تنخواہ کا تیسرا حصہ گھر دیتا رہا اور چپ چاپ گھٹ گھٹ کے جیتا رہا.

اس بیچ ملک میں ایک بار پھر سے میڈیا ہاوسز نے برطرفیاں شروع کر دیں اور حکومت سمیت تمام طبقے اسلئے سوئے رہے کہ صحافی کو نکال دیا ہے تو خیر ہے یار صنعتکاروں کو تین سو ارب معاف کرو صحافیوں کو تو ویسے بھی مر ہی جانا چاہئیے. تحریر بے ربط اسلئیے ہے کہ اب اسکے ذہن اور حالات کے چلتے الفاظ اسکا ساتھ نہیں دے پاتے ایک وقت تک انہی الفاظ کے جادو سے ارباب اختیار کو ہلا کر وہ کئی محروم طبقوں کی آواز بن چکا ہے مگر اب خود کی باری آئی ہے تو وہ نیم پاگل ہو گیا ہے کہ اسے بھی نکال دیا جائے گا یا شاید بائیس ہزار میں سے بھی تنخواہ کم کر دی جائے.

حکومت ، مالکان یہ دونوں اپنے اپنے گھر خوش ہیں اور مزے سے کھیل رہے ہیں. مگر اس جیسے سینکڑوں بے روزگار ہیں ، ایک نکالا جانے والا کسی اسپتال میں زیر علاج ہے ، ایک نکالے جانے والے کے گھر راشن ختم ہے مگر وہ احتجاج میں شامل تھا کہ شاید اس احتجاج سے اسکی نوکری واپس مل جائے مگر یہ کیا ہوا کہ اس احتجاج سے کسی کے کان پہ جوں تک نہ رینگی . اس جیسے کئی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ یار بچوں کی فیس کھانا پینا ماں باپ کی دوائی وغیرہ وغیرہ کہاں سے لاوں گا ، بہن کی شادی کیسے کروں گا اپنا علاج کیسے کرواں گا خیر میں علاج نہ بھی کرواؤں تو خود کو زندگی کی پٹڑی پر چلا ہی لوں گا مگر جن کی امیدیں مجھ سے جڑی ہیں انکی کون سنے گا.

اس جیسے کئی آج اس ملک کے تعلیمی نظام اور طبقاتی نظام کو بے چارگی سے دیکھ رہے ہیں کہ کاش ڈگری حاصل نہ کرتا کوئی ہنر سیکھ لیتا. آج سچ دکھانے اور بولنے کی پاداش میں گھر میں فاقے نہ ہوتے اس جیسے کسی ایک نے کھانے کا ڈھابہ بنا رکھا ہے اور اس جیسے کئی خود کشیوں کا سوچ رہے ہیں. کیونکہ حکومت وقت ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتی رہ گئی اور یہاں کے کوفہ مزاج لوگوں نے اپنا کام کر دکھایا.

حکومت بھی ان افراد کے ساتھ باقاعدہ ملوث ہے اب یہ جو نکال دئیے گئے ہیں یا نکالے جائیں گے وہ کیونکر اس ملک کے نظام کے ساتھ مخلص ہوں گے.وہ کیوں قانون کی پاسداری کریں گے ، وہ کیوں انصاف و حق کی بات کریں گے ؟؟؟ وہ تو باغی ہو گئے انہیں بنا دیا گیا ، کئی تو نیند کی گولیاں پھانک کر اس بھیانک خواب سے آنکھیں موندنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر صحافت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے. اور جعلی سمائیلیں دینے والے صحافی نوکریاں چھن جانے پر اب حقیقت میں پریشان نظر آرہے ہیں خیر ان ہزاروں لوگوں کو نہ صرف حکومت نے اپنے خلاف کیا ہے بلکہ باغیوں کی ایک نئی لہر کی بنیاد خود رکھ دی ہے آئیندہ آنے والے سالوں میں یہ بے روزگار یا تو خودکشیاں کریں گے یا رب جانے کیا کریں گے

اس جیسا میں بھی ڈگری ہاتھ میں لئے سوچ رہا ہوں کہ مجھے تو صحافت کے سوا کچھ بھی نہیں آتا نکال دئیے جانے پہ میں کیا کروں گا؟؟؟؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے