وزیراعظم عمران خان کے بااعتماد دوست زلفی بخاری نے اچانک سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ اپنے سپیشل اسسٹنٹ کے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں کیونکہ ان کا نام راولپنڈی رِنگ روڈ سکینڈل میں آ رہا ہے اور جب تک انکوائری نہیں ہو جاتی وہ وزارت سے دور رہیں گے۔ انہوں نے اس کا کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کو دیا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں کسی کے خلاف شبہ بھی ہو تو وہ استعفیٰ دے دیتا ہے تاکہ پہلے انکوائری سے کلیئر ہو‘ پھر وزیر بن سکتا ہے۔
رنگ روڈ سکینڈل نے اب انڈے بچے دینے شروع کر دیے ہیں۔ راولپنڈی کی انتظامیہ کو بڑے پیمانے پر ہٹایا گیا ہے اور ان کے خلاف انکوائریز کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی گئی جس پر صرف ایک ممبر کے دستخط ہیں اور باقی دو‘ جن میں ایک ڈپٹی کمشنر پنڈی تھے‘ نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ انکوائری کے سربراہ کی رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ایک اور ممبر نے بھی انکار کر دیا تو دونوں کو ہٹا دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ زلفی بخاری درمیان میں کہاں سے ٹپک پڑے؟ یہ تو لندن سے آئے تھے تاکہ پاکستانیوں کو بتا سکیں کہ ٹورازم کس بلا کا نام ہے اور اوورسیز پاکستانیوں کی حالت کیسے بدلی جائے گی۔ ان کا نام پہلی دفعہ پاکستانی لوگوں نے اُس وقت سنا جب ریحام خان لندن گئیں اور انہیں طلاق دے دی گئی تو معاملات سنبھالنے کا ٹاسک انہیں دیا گیا۔ ان کے بارے پتہ چلا کہ وہ عمران خان کو اپوزیشن کے دنوں میں لندن ایئرپورٹ سے پک اینڈ ڈراپ اور دیگر سہولتیں فراہم کرتے تھے۔
دوسری دفعہ زلفی کا نام اُس وقت پاکستانی عوام نے سنا جب خان صاحب الیکشن جیتنے کے بعد ابھی وزیراعظم نہیں بنے تھے اور علیم خان کے جہاز میں عمرہ کرنے سعودی عرب جا رہے تھے تو ایئرپورٹ پر پتہ چلا کہ ان (زلفی) کا نام بلیک لسٹ میں تھا۔ سب حیران کہ خان صاحب تو کہتے تھے کہ ان کے دوستوں کے ‘دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں‘ اور یہاں ایک دوست ایسا کیا کررہا تھا کہ اس کا نام بلیک لسٹ میں تھا؟ خیر خان صاحب نے بھی لندن کے دوست کے بغیر جہاز میں بیٹھنے سے انکار کردیا اور فوراً وزارتِ داخلہ میں رابطہ کرکے کہا کہ نام نکالا جائے۔ مستقبل کے وزیراعظم کے حکم کی تعمیل ہوئی اور فوراً نام بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا‘ یوں زلفی صاحب کو لے کر خان صاحب سعودی عرب گئے۔ پاکستانی قوم حیران تھی کہ بخاری صاحب کے پاس آخر کون سے گیدڑسنگھی ہے کہ انہیںاتنے بڑے عہدے سے نواز دیا گیا۔ یہی سوال ارشد شریف نے عمران خان صاحب سے اپنے انٹرویو میں پوچھ لیا کہ یہ زلفی بخاری کون ہیں؟ تو خان صاحب نے جواب دیا کہ وہ ان کا ذاتی دوست ہے۔ ارشد نے پوچھا :کب سے؟ خان صاحب بولے: سات آٹھ سال سے اور لندن میں بڑا کامیاب بزنس مین ہے۔
ارشد نے اچانک پوچھ لیاکہ آپ کا دوست لندن میں کیا کاروبار کرتا ہے؟ خان صاحب بولے: یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا کاروبار کرتا ہے۔ اندازہ کریں کہ کوئی آپ کا سات آٹھ سال سے دوست ہے اور آپ اسے اپنی حکومت میں اعلیٰ عہدہ دے رہے ہیں‘ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی بیٹھتا ہے لیکن آپ کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کیا کام کرتا ہے۔
جب بخاری صاحب نے دیگر سپیشل اسسٹنٹس کے ساتھ گوشوارے جمع کرائے تو بھی پتہ نہ چل سکا کہ وہ لندن میں کیا کاروبار کرتے ہیں۔ لگتا ہے لندن میں چند دکانیں یا عمارتیں ہیں جن پر خرچہ پانی چل رہا ہے۔ بہت سے اوورسیز پاکستانی ناراض ہو جاتے ہیں کہ شاید ہم پاکستان میں ان کو عہدے ملنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اب بتائیں پنڈی میں ایک رِنگ روڈ بن رہی ہے اس میں زلفی بخاری کا کیا رول نکل آیا؟ ابھی اندر کی کہانیاں افشا ہوں گی تو شاید لوگوں کی آنکھیں حیرت سے کھل جائیں کہ لندن کا بابو پنڈی بوائے بن کر کیا کام کر رہا تھا۔ آخر کچھ نہ کچھ تو وزیر اعظم کے سامنے ایسا لایا گیاکہ انہوں نے زلفی بخاری کو کہا کہ وہ استعفیٰ دیں تاکہ انہیں فیس سیونگ مل سکے۔ ایسی کیا بات تھی جس نے خان صاحب کو بھی قائل کر دیا کہ انہیں ہٹانا ضروری تھا۔ اگرچہ وقتی طور پر بلے بلے کرانے کیلئے ایک آدھ وزیر کو ہٹا بھی دیں تو کچھ دنوں بعد وزارت واپس دے دی جاتی ہے اور قوم کو بتایا جاتا ہے مبارک ہو سکینڈل سے کچھ نہیں ملا۔ شوگر سکینڈل میں ان کے قریبی دوست اور وزیر ملوث تھے جن کے نام ایف آئی اے کے انکوائری کمیشن میں تھے‘ سب پر کمیشن نے انگلیاں اٹھائی تھیں لیکن مجال ہے کسی ایک کے خلاف کارروائی ہوئی ہو یا ان سے استعفیٰ لیا گیا ہو۔ ندیم بابر دو سال تک کھل کر کھیلتے رہے اور جب پانی سر سے گزر گیا تو انہیں بھی اشارہ کیا گیا کہ کافی ہو گیا اب پتلی گلی سے نکل جاؤ۔
یہ قوم گجنی ہے‘ اسے صبح کا ناشتہ شام تک یاد نہیں رہتا‘ ایل این جی گیس امپورٹ کا سو ارب سے زائد کا سکینڈل یا پچیس ارب کا تیل سکینڈل کہاں یاد رہے گا؟ وہی ہوا انکوائری رپورٹ آئی تو کہا گیا کہ ندیم صاحب کو ہٹایا جا رہا ہے لیکن ہیں وہ معصوم۔ اس ملک میں روز نئے ڈاکے پڑتے ہیں۔ لوگ ندیم بابر اور آئل سکینڈل بھول گئے ہیں‘ اعظم سواتی صاحب ایک اور کلاسیک مثال ہیں کہ یہ قوم گجنی کیسے بنتی ہے۔ جعلی نوٹ عطیہ فیم ان صاحب کے فراڈز پر مشتمل پانچ رپورٹس ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں پیش کیں۔ مستقل سزا اور نااہلی کے ڈر سے وزارت سے استعفیٰ دے دیا‘ کچھ دن بعد معاملہ ٹھنڈا ہوا اور قوم پر گجنی اثرات ظاہر ہوئے تو انہیں دوبارہ وزیر بنا کر پوری پارلیمنٹ دے دی گئی۔ اب میرے خیال میں بخاری صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا۔ چند دن تک سب تالیاں بجائیں گے پھر سب بھول جائیں گے اور کچھ دن بعد وہ دوبارہ نعرے مارتے نازل ہوں گے اور ڈٹ کر داد پائیں گے۔
یہ ذہن میں رکھیں ارب پتی لندن کے ہوں یا نیویارک اور پاکستان کے‘ سب کی جیبوں میں راتوں رات ارب پتی بننے کے منصوبے ہیں۔ یہ سیاستدانوں پر خرچ کرتے ہیں‘ لندن‘ امریکہ یا یورپ میں ان کی مہمان نوازی‘ خدمت اور شاپنگ سب کچھ کرتے ہیں اور اوورسیز پاکستانیوں پر رعب جماتے ہیں کہ وہ فلاں سیاستدان‘ وزیر یا سابق یا موجودہ وزیراعظم یا وزیروں کے قریبی دوست ہیں۔ یہ ان کے ساتھ ڈنر‘ لنچ کی پکس سوشل میڈیا پر لگائیں گے‘ انہیں ایئرپورٹ سے پک اینڈ ڈراپ کی سروس فراہم کریں گے۔ یہ سب سرمایہ کاری ہورہی ہوتی ہے۔ جونہی ان میں سے کوئی اقتدار میں پہنچتا ہے تو فوراً پاکستان پہنچ کر پارٹیاں پکڑنا شروع دیتے ہیں کہ چلیں آپ کے کام کرائیں‘ یا اپنے ساتھ کچھ بڑے منصوبے ساتھ لاتے ہیں جن میں خاصا کمیشن ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ میں برطانیہ میں کئی اوورسیز پاکستانیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پر اسی طرح سرمایہ کاری کی اور ان کے اقتدار میں آتے ہی پاکستان پر نازل ہوئے اور سود سمیت خرچہ نکال کر لے گئے۔ ان کے نزدیک یہ بھی کاروبار ہے کہ سیاستدانوں پر خرچ کرو اور پھر لمبا مال بناؤ۔
زلفی بخاری کو دیکھ لیں جن کے کاروبار کا خان صاحب کو علم تک نہ تھا لیکن محض ان کی خدمات کے عوض وزیر بن گئے۔ جو لندن سے پاکستانیوں کی قسمت بدلنے آئے تھے وہ خود راولپنڈی رِنگ روڈ میں اپنی قسمت بدلتے یا جہانگیر ترین کی طرح جو سرمایہ کاری خان صاحب پر کی تھی وہ سود سمیت نکالنے کے چکر میں شک میں پکڑے گئے۔ میرے خیال میں ایسے بین الاقوامی سوداگر نظیر اکبر آبادی کے اس شعر پر زندگی گزارتے ہیں:
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ/ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے/ اس ہات دے اُس ہات لے
بشکریہ دنیا