حامد میر پر کیپیٹل ٹاک پروگرام کرنے پر پابندی عائد

‏گذشتہ بیس برس سے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان حامد میر پر دوسری بار پابندی عائد کر دی گئی ۔ پہلی پابندی ان پر سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں عائد کی گئی تھی.

جیو نیوز نے اپنے معروف پروگرام کیپیٹل ٹاک کے اینکر پرسن حامد میر پر پابندی عائد کر دی ۔ آج رات سے وہ ناظرین کو کیپٹل ٹاک کی میزبانی نہیں کر سکیں گے ۔

حامد میر نے تین روز قبل اسد طور پر حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران گفتگو میں کہا تھا کہ اب ہم کھل کر بات کریں گے ۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اگر “آپ” نے صحافیو ں پر حملے بند نہ کیے تو ہم بھی بتائیں گے کہ “ کس کی بیوی نے کس پر کہاں گولی چلائی تھی “

حامد میر اپنی اس گفتگو کے بعد سوشل میڈیا سمیت عالمی میڈیاپر زیر بحث ہیں ۔

اسی وقت سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جیو کی انتظامیہ اب یہ “بوجھ “ مشکل سے ہی برداشت کر پائے گی ۔ حامد میر نے اپنی گفتگو کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ صحافی بہت سی باتیں اس وجہ سے نہیں کر سکتے کہ اسٹیبلشمنٹ میڈیا مالکان پر دباؤ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے ادارے بند ہو جاتے ہیں اور کئی صحافی بے روزگار ہو جاتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ اب ہمیں کھل کر بات کر نی ہوگی ۔

حامد میر نے گذشتہ دنوں اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک طرف صحافیوں کے تحفظ کا قانون لایا جا رہا ہے دوسری طرف میڈیا ٹربیونلز بنائے جا رہے ہیں جو کروڑوں کے جرمانے کرینگے تین سال قید کی سزا دینگے اور جن کے فیصلے ہائی کورٹ میں نہیں صرف سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکیں گے اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئیے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا کا 5واں خطرناک ملک ہے۔فریڈم نیٹورک پاکستان کے مطابق ایک سال میں صحافیوں پر 148 حملے ہوئے ہیں۔اسلام آباد میں صحافیوں پر سب سے زیادہ حملے ہو رہے ہیں۔ پریس فریڈم اینڈیکس میں پاکستان صرف دو سال میں 139 سے 145 پر آ گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کو مسترد کر تی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے ذریعے میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے،

شیری رحمان نے کہا کہ یہ ‘میڈیا مارشل لا’ قابل مذمت ہے، اس کی بھرپور مخالفت کرے گے،

جرنلسٹ پروٹیکشن بل اسیمبلی سے پاس ہونے کے بعد اس آرڈیننس کی تیاری کرنا حکومت کا دوہرا معیار ہے۔

شیری رحمان نے کہا کہ عالمی اداروں نے بھی ملک میں سنسرشپ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

شیری رحمان نے کہا کہ اس اتھارٹی کے تحت میڈیا کی مزید سخت نگرانی کا منصوبا بن رہا ہے، اس اتھارٹی کے ذریعے صحافیوں کو نکالا جائے گا اور جرمانے لاگو کئے جائے گے۔شیری رحمان نے کہا کہ حکومت کی میڈیا کو وضاحت فراہم کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اس قانون کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر قابو پانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

شیری رحمان نے کہا کہ یہ تباہی سرکار کا سنسرشپ کو ادارتی اور قانونی تحفظ دینے کا منصوبہ ہے۔اس کے بعد میڈیا ادارے یا تو ریاستی ترجمان بن جائے گے یا بند ہوجائے گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے