کیا سرمایہ داری اچھا معاشی نظام ہے؟

انسان نے مختلف ادوار میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کےلیے مختلف اصول اور نظام قائم کیے ہیں اور بہت سے نظام اور اصول ختم بھی کیے ہیں۔ پہلے انسان نے آزاد تجارت کا اصول اپنائے رکھا جس پہ ریاست یا ملک کی طرف سے کچھ قواعد و ضوابط بھی لاگو ہوتے تھے۔ اور ہر شخص اپنی استعداد اور عقل کے مطابق تجارت کر سکتا تھا اور اس کے نفع نقصان کا وہ خود زمہ دار ہوتا تھا۔ تجارتی نظام کافی حد تک انسانیت کی بھلائی اور بہتری کےلیے کار آمد رہا۔ پھر زرعی انقلاب کے بعد انسان نے جاگیردارانہ نظام کا بھیانک روپ دیکھا جس میں، غلاموں اور رعایا سے جبری مشقت کرائی جاتی اور پیداوار کا سارا منافع جاگیر دار اپنے پاس رکھتے۔ مزدوروں اور کسانوں کی زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزر رہی تھی اور ان کی معاشی آسودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ یعنی کام نہ کرنے والوں کو سب کچھ مل جاتا اور کام کرنے والوں کو کچھ بھی نہ ملتا۔ زرعی انقلاب کے بعد دنیا صنعتی انقلاب کے دور میں داخل ہو گئی اور بد قسمتی سے اکثر سرمایہ دار جو کہ جاگیر دار تھے۔ انہوں نے زراعت کے علاوہ صنعتوں میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ اور یوں ایک بار پھر عام انسانیت ان لالچی سرمایہ داروں کے نرغے میں پھنس گئی۔ صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت تشویشناک ہوتی تھی۔ ان کو نہ ڈھنگ کا کھانا ملتا تھا، نہ پورا معاوضہ۔ تمام تر منافع کا حقدار صنعت کار ہوتا تھا۔ اس استحصال کو سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جاتا تھا۔ بلکہ ابھی تک سرمایہ دارانہ نظام کم و بیش کچھ اصلاحات کے ساتھ اپنا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا بانی برطانوی معیشت دان ایڈم سمتھ ہے۔

ایڈم سمتھ نے اٹھارویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام متعارف کروایا۔ جس کے تحت آزاد منڈی (فری مارکیٹ) اور نجی کاروباری اور سرمایہ کا نظریہ پروان چڑھا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی مکمل روح کے ساتھ کہیں بھی لاگو نہیں۔ آج جو ممالک مثلا یورپ اور امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہیں انہوں نے بھی سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصولوں میں کچھ ترامیم کی ہوئی ہیں۔ بنیادی طور پہ سرمایہ دارانہ نظام ایک معاشرتی اور معاشی نظام ہے۔ جس کے تحت ہر فرد کو کاروبار کرنے اور منافع کو ہر ممکن حد تک بڑھانے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں امیر امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی واضح مثال ہم آج کی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ کہ 20 فیصد لوگوں کے پاس دنیا کے کل سرمائے کا 80 فیصد ہے۔ جب کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی کے پاس کل وسائل کا صرف 20 فیصد ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جرمنی کی فلسفی کارل مارکس نے اشتراکیت کا نظریہ پیش کیا۔

بیسویں صدی میں دنیا بھر کے اکثر لوگوں نے اس نظام کو اپنا خیرخواہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل سمجھ لیا۔ اور دنیا کے اکثر ممالک میں اشتراکی نظام کے حق میں تحریکیں شروع ہو گئیں۔ آخر کار سب سے پہلے روس نے اشتراکیت کو ملک کے معاشی نظام کے طور پر نافذ کر دیا۔ اشتراکی نظام کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ کسی بھی فرد کو ذاتی سرمایہ اور جائیداد رکھنے کا حق حاصل نہیں۔ بلکہ تمام وسائل حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں ہوں۔ عوام حکومت کےلیے کام کریں اور بدلے میں حکومت ان کو برابر معاوضہ اور سہولیات دینے پابند ہو گی۔ اشتراکی نظام کے اقتدار میں آنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام پر دباؤ بہت بڑھ گیا جس کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والے ممالک نے کچھ قوانین وضع کر کے مزدوروں اور کسانوں کو تحفظ اور ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام رکھنے والے ممالک نے ایک لمبے عرصے تک سرد جنگ بھی لڑی۔ تاہم اشتراکی نظام اپنی کچھ خامیوں کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام سے ہار گیا اور دنیا ایک بار پھر سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والے ممالک کے زیر نگیں آ گئی۔ اشتراکی نظام میں کام کرنے والوں، کام نہ کرنے والوں اور کم زیادہ کام کرنے والوں کو ایک جیسا معاوضہ اور منافع ملتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں کام چوری اور سستی نے جنم لینا شروع کیا۔ باقی سوویت یونین کی افغانستان میں شکست نے بھی اشتراکی نظام کو ناکام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب تقریباً پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا دور دورہ ہے تو کیا یہ ایک مثالی معاشی نظام ہے۔ اور کیا یہ ہی انسانیت کا آخری معاشی نظام ہے۔ ایسا نہیں ہے نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کوئی مثالی معاشی نظام ہے اور نہ ہی آخری۔ اس سودی نظام نے دنیا بھر میں امیر غریب طبقات سے لے کر امیر غریب ممالک میں واضح تفریق پیدا کر دی ہے۔ سود اور ناجائز منافع خوری پہ مبنی بنکاری نے انسانوں کی اکثریت کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مضبوط معیشت والے ممالک مالیاتی اداروں کے ذریعے یا خود دوسرے ممالک کو قرضے دے کر ان کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں براہ راست مداخلت کرتے ہیں۔ اگر چہ سرمایہ دارانہ نظام کو ٹکر دینے والا اشتراکی نظام ناکام ہو چکا ہے لیکن پھر بھی سرمایہ دارانہ نظام صحیح طور پر چلتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ دنیا کو جلد یا بدیر اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ اگر چہ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو بہت زیادہ ترقی اور ٹیکنالوجی سے مستفید کیا ہے تاہم اس ترقی اور ٹیکنالوجی کے بدلے میں انہوں نے دنیا بھر کی دولت پر قبضہ جما لیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک سرمایہ دارانہ نظام بہتر نظام ہے اگر ابھی بھی اس میں کچھ مزید ترامیم کر لی جائیں اور دولت کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے روک لیا جائے۔ لیکن چونکہ پوری دنیا کے ممالک میں قانون سازی پہ سرمایہ دار طبقے کا اثر و رسوخ ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے مفاد کے خلاف کوئی بھی قانون نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ اسلام کا معاشی نظام اس گھٹن زدہ ماحول میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ بشرطیکہ اسلامی نظام کو اپنی اصل روح میں نافذ کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے