علاقائیت کی بنیاد پر نشانہ بننے والی خواتین

اگرچہ صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بہت سی تحقیقات ہوچکی ہیں تاہم خواتین صحافیوں کے مسائل پرزیادہ کام نہیں ہوا کہ پاکستان میں خواتین صحافیوں کو کس قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے اور خواتین کے لیے صحافت کی دنیا میں آگے بڑھنا کس قدر مشکل ہوتا جا رہا ہے؟ خواتین صحافی آن لائن کام کر رہی ہوں یا دفاتر میں، دونوں صورتوں میں انہیں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کو کام کے بجائے لباس اور چال ڈھال اور لب و لہجے کے حوالوں سے پرکھا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر پرکھنے کے باعث خواتین صحافیوں کیلئے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گیا ہے۔

ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی صباحت بتاتی ہیں کہ انہوں نے 2012 میں ایک اخبار میں کام کا آغاز کیا تو ان کی زبان اور علاقائی لہجے کی بنیاد پر مذاق اڑایا گیا۔ حالانکہ علاقائی لب و لہجہ انسان کے ساتھ عمر بھر چلتا ہے اور اسے بدلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی مادری بولی پہاڑی زبان ہے اور وہ اسی زبان اور لب و لہجہ کی عادی ہیں اور ان کے لہجے میں اس کا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔ اب وہ کسی دوسری زبان یعنی اردو، انگریزی یا کسی اور زبان میں بات کرتی ہیں تو ان کے لہجے کا اثر نمایاں ہوتا تھا۔ اس بنیاد پر انہیں کئی شعبوں میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ صباحت کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کے باوجود اس لہجے کے اثر کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

صباحت کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک بڑا عرصہ اخباری صنعت کے میگزین سیکشن میں کام کیا اور ان کا کام اسٹوری لکھنا، ایڈیٹ کرنا، خبر بنانا اور ویڈیو اسٹوری اور انڑویو کرنا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ "میں نے کئی اداروں میں کام کیا اور تقریبا ہر ادارے میں پہاڑی لہجے اور تلفظ کی ادائیگی کی بنیاد پر نہ صرف مذاق اڑایا گیا بلکہ باقاعدہ طور پر اس کا احساس بھی دلایا گیا کہ آپ کا لب و لہجہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کے بولنے میں علاقائی لہجہ کی جھلکا رہی ہے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح اسٹوری لکھتے ہوئے بھی مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ٹیلی فونک انڑویو میں بھی میرے لہجے کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا جاتا تھا اور میرے لہجے کی کاپی کر کے میرا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف لہجے کی بنیاد پر کبھی ان کے اچھے کام کی کبھی تعریف نہیں کی گئی اور نہ ہی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں کام کرنا چاہتی تھی لیکن مجھے ٹارگٹ کیا گیا اور راہ میں روڑے اٹکائے گئے اس کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھتی رہی۔

ایسی ہی کہانی سوات سے رکھنے والی خاتون صحافی آفتاب جہاں کی ہے، جن کو لب و لہجے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا رہا۔

یہ کہانی صرف صباحت اور آفتاب جہاں کی ہی نہیں بلکہ ہر اس فرد کی ہے جو دور دراز علاقوں سے اٹھ کر شہروں میں اپنی صلاحیتیوں کے بلبوتے پر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالخصوص خیبر پختونخواہ، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور دور دراز کے علاقوں کے باسیوں کو لب و لہجے اور الفاظ کی ادائیگی پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ ان چیزوں کا ادراک کرنے کے بجائے کمزوری سمجھ کر مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس بنیاد پر إحساس کمتری کا شکار ہو کر لوگ اپنے ٹیلنٹ کو ضائع کریں اور کام چھوڑ دیں بلکہ اسی لہجے کو اپنی کامیابی اور پہچان بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ یہ زندگی کا حصہ ہیں، اسے قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لئے لوگوں کی باتوں کو پاؤں تلے روندھ ڈالنا چاہئیے۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکے ایسا لب و لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکے اور ہم ٹارگٹ ہونے سے بچ سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے