بنگلہ دیش کے مطالبے اور پاکستان کے مکالمے

اس وقت پاکستانی انٹرنیٹ پر یا تو آرمی چیف کی حالیہ تقریر پر گفتگو ہو رہی ہے، یا 18 اپریل 2025 کو پاکستان کی خارجہ سیکریٹری آمنہ بلوچ اور بنگلہ دیش کے خارجہ سیکریٹری جاشم الدین کی ملاقات کا چرچا ہے۔ دل تو چاہتا تھا کہ چیف صاحب کی تقریر پر کچھ لکھوں، لیکن خیرخواہ نے سمجھایا کہ "Stay in your lane”۔ پھر بھی دلِ نادان نے زور آزمائی کی اور باور کرانے کی کوشش کی کہ میرا صرف تبصرہ ہوگا محمد حنیف صاحب کے حالیہ وی لاگ پر، بلکہ تبرا ہوگا۔

تب خیرخواہ نے کھول کھول کر مجھ کو میری اوقات یاد دلائی، جس میں نشانیاں تھیں ممکنہ مستقبل کی۔ انھوں نے فرمایا کہ حنیف صاحب کا رتبہ، دبدبہ اور حدود و ثغور کو پہچان لیجئے ۔ وہ اوکاڑہ(صوبہ پنجاب کا ایک مشہور زرعی شہر) کے بیٹے ہیں۔ وہ پیور پنجابی ہیں، پی اے ایف کے سابق افسر، سیکیورٹی کلیئرنس یافتہ، سسرال بھی مضبوط، انگریزی و اردو پر مکمل عبور، پنجابی ماں بولی، اور "دی نیویارک ٹائمز”، "دی ڈیلی ٹیلی گراف”، "دی نیویارکر”، "واشنگٹن پوسٹ” جیسے عالمی جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ بی بی سی کے سینئر صحافی ہیں۔ وہ چاہیں آموں پر فکشن لکھیں یا پاکستان کے رکھوالوں پر نان فکشن بیانیے، ان کی ستے خیراں—مگر تیرا کیا بنے گا رخشندہ، بہاری… بیہاران؟ نہ کوئی ڈاک خانہ، نہ کوئی سوشل میڈیا اسٹارڈم؟ پھر جا کر "Stay in your lane” کی اصل روح سمجھ آئی۔

پھر بھی دل سے ایک پارٹنگ نوٹ نکل ہی گیا کہ بڑے صاحب سے عرض کر دیں کہ لگتا نہیں ہے کہ کوئی ان کا دوست ہے، ورنہ کم از کم چند اچھی تقریریں ہی لکھ دیتا، یا کچھ ممنوع الفاظ کی فہرست تھما دیتا۔ اللہ ان کے دوست نما دشمنوں کو راہِ راست پر لائے۔

لہٰذا آج کا اصل کالم تو تلف کر دیا گیا، اور جو آپ کے سامنے ہے، وہ نقلی تو نہیں لیکن متبادل ہے، بلکہ قائم مقام ہے، اور کچھ کم نہیں ہے۔ وہی میرا کاز، اور پاکستان بنگلہ دیش کے حوالے سے المناک باب کی تشریح اور اس کی برمحل اہمیت۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا—بنگلہ دیش نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 1971 کی آزادی کی جنگ کے دوران اپنی افواج کی جانب سے کی گئی مبینہ نسل کشی پر باضابطہ معافی مانگے۔ پاکستان نے ان معاملات پر بات چیت کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان 14 سال کے وقفے کے بعد مذاکرات کی بحالی کی علامت ہے۔ اچھی بات ہے کہ پی ٹی وی کے خوشامدی کلام ، ڈرامے ‘ ڈھول، دھمال، عاطف اسلم اور راحت فتح علی خان کے کنسرٹس کے بعد اب "آپ جناب” کے مراحل سے گزر کر سرکار نے پیچیدہ امور پر زبان کھولنے کی جسارت کی ہے۔

میں نے اپنے کئی کالمز اور پوڈکاسٹس میں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ 1971 کا زخم چھپانے یا چھاپنے سے نہیں بھرے گا، بلکہ اس پر جم کر، جامع اور جرات آمیز مکالمہ کرنا ہوگا۔

جی ہاں، بنگالیوں پر سیاسی ظلم ہوا تھا، لیکن نسل کشی بہاری اور دیگر غیر بنگالیوں کی ہوئی۔ آبروریزی ہماری بہاری برادری کی عورتوں کی ہوئی۔ بے گھر، بے در، بے شناخت ہم ہوئے۔ اس کا حساب کون دے گا؟ مکتی باہنی کی قتل و غارت اور مظالم کا احتساب کون کرے گا؟

اخبارات اور دیگر میڈیا کے مطابق جاشم الدین نے بتایا کہ "پاکستان نے ان امور پر مستقبل میں جاری بات چیت کی تجویز دی ہے۔ آج (18/4/25) کی ملاقات ایک معمول کی مشق ہونی چاہیئے تھی، لیکن آخری ملاقات 2010 میں ہوئی تھی۔” انہوں نے بتایا کہ دن کی سفارتی مصروفیات کی تفصیلات شیئر کی گئیں، جن میں صبح کے وقت پدما اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں سیکریٹری سطح کے مذاکرات شامل تھے۔ بنگلہ دیشی وفد کی قیادت جاشم الدین نے کی، جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت خارجہ سیکریٹری آمنہ بلوچ نے کی۔ مذاکرات کے بعد آمنہ بلوچ نے چیف ایڈوائزر پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس اور خارجہ امور کے مشیر محمد توحید حسین سے ملاقاتیں کیں۔

گزشتہ سال، ڈاکٹر یونس نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ 1971 کی جنگ سے متعلق باقی ماندہ مسائل کو "ایک بار اور ہمیشہ کے لیے” حل کیا جائے، تاکہ ڈھاکہ، اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب پیش قدمی کر سکے۔ تاہم، انہوں نے اپنی افواج کی جانب سے جنگ کے دوران کی گئی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور جنسی زیادتیوں پر باضابطہ معافی کا واضح طور پر مطالبہ نہیں کیا تھا، جو کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے دوطرفہ تعلقات کی بحالی کی ایک شرط کے طور پر رکھا تھا۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے، ان دونوں وزرائے خارجہ کا مختصر تعارف پیش ہے:

ہز ایکسیلینسی جاشم الدین نے 1994 میں بنگلہ دیش سول سروس کے 13ویں بیچ کے ساتھ فارن سروس کیڈر میں شمولیت اختیار کی۔ وہ وزارتِ خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل (جنوبی ایشیا) اور ڈائریکٹر جنرل (مشرقی ایشیا و بحرالکاہل) کے عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے نئی دہلی، ٹوکیو، واشنگٹن ڈی سی، اور اسلام آباد سمیت مختلف سفارتی مشنز میں خدمات انجام دیں۔ ستمبر 2024 میں انہیں بنگلہ دیش کا سیکریٹری خارجہ مقرر کیا گیا۔

ہر ایکسیلینسی آمنہ بلوچ نے 11 ستمبر 2024 کو پاکستان کی 33ویں سیکریٹری خارجہ کے طور پر عہدہ سنبھالا۔ ان کی آخری تعیناتی مئی 2023 سے ستمبر 2024 تک بیلجیم، لکسمبرگ اور یورپی یونین میں پاکستان کی سفیر کے طور پر تھی۔ اس سے قبل وہ ملیشیا، چینگڈو، کولمبو، اور کوپن ہیگن جیسے مقامات پر پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی سے تاریخ میں ماسٹرز اور سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ وہ ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں۔

میں نے زمینی حقائق کو جاننے کے باوجود امید سے دوبارہ رشتہ جوڑ لیا ہے – میں خواب دیکھ رہی ہوں جاگتی آنکھوں سے ایک باوقار دور ایک دوستی کی جہاں امن ، مساوات ،معافی اور تلافی ہو گی۔

امید ہے کہ ہز ایکسیلینسی جاشم الدین اور امریکہ میں پاکستانی کوٹے پر تعلیم حاصل کرنے والے سابقہ پاکستانی طالب علم اور امن کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس نام نہاد "لبریشن وار” کی بھیانک حقیقت سے آگاہ ہوں گے اور پاکستان پر بے جا الزام تراشی اور بہتان بازی سے گریز کریں گے۔ امید ہے کہ دونوں بھائی ممالک جگ ہنسائی سے بچ سکیں گے۔ اور امید ہے کہ پاکستانی لبرل اور "بکاؤ” صحافی اور دانشور بھی پاکستان سے محبت کرنے والے عبرت بنے افراد سے کچھ سیکھیں گے اور ضمیر کو جھنجھوڑیں گے اور ان کی پاکستان با عزت منتقلی یا بنگلہ دیش میں با عزت آباد کاری سے متعلق اپنی آواز بلند کریں گے –

امید ہے کہ پاکستان بھی اپنے اس کربناک اور افسوسناک ماضی کو حوصلے سے دیکھے گا، اور مستقبل کو روشن رکھنے کے لیے دونوں ملکوں کے عوام کو امن و احترام کے ساتھ آگے بڑھانے میں مخلص ہوگا۔ اور یہ کہ ہمارا دفتر خارجہ ماضی کی غیر مؤثر روش سے نجات پا کر نئے باب کا آغاز کرے گا۔

مجھے اپنی ICG اسلام آباد کی کلاس فیلو کی ذہانت، دیانت اور صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ اس اعصاب شکن سفارت کاری کو خوبی سے انجام دیں گی۔ آپ سیاسی، لسانی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر 1971 کے انسانی المیے اور بہاری برادری کی بربادی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ ہمیں، جو اس تاریخ کے اصل سٹیک ہولڈرز ہیں، پالیسی سازی میں شامل کریں اور ہماری آواز کو سنیں –

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے