’’گزشتہ ایک برس سے میں موت کے سائے تلے زندگی گزار رہا ہوں۔ اِس خوف کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں کچھ فیصلوں کا انتخاب کیا۔ اِس انتخاب کے نتائج مجھے اکیلے ہی بھگتنا ہوں گے، کسی اور کو نہیں۔ اور اُن نتائج کا وقت اب آن پہنچا ہے۔‘‘
یہ ایک فلم کا مکالمہ ہے جو مجھے نہیں بھولتا۔ کچھ باتیں دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہوتا اور یہ بھی ایسی ہی ایک بات ہے۔ زندگی میں اگر آپ نے کسی نوجوان کو صرف ایک مشورہ دینا ہو تو کم از کم میں تو یہی مشورہ دوں گا کہ اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر کرو کیونکہ ہر فیصلے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو کسی نہ کسی مرحلے پر آپ کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ لیکن یہ فیصلے بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو روزمرہ زندگی کے فیصلے ہیں، جیسے کہ آج ناشتے میں کیا کھانا ہے، ٹی شرٹ کہاں سے خریدنی ہے، مری میں کس ہوٹل میں ٹھہرنا ہے۔ یہ فیصلے اگر غلط بھی ہو جائیں تو زندگی میں کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا، زیادہ سے زیادہ ایک دن کے لیے آپ کا موڈ خراب ہوگا مگر اُس کے بعد آپ بھول جائیں گے۔ لیکن فیصلوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو آپ کی زندگی پر اچھا خاصا اثر ڈالتی ہے اور اُن کے دور رَس نتائج نکلتے ہیں، لہٰذا ایسے فیصلے کرتے وقت ذہن میں رہے کہ ایک دن اِن کا نفع یا نقصان آپ کے کھاتے میں ضرور آئے گا۔ اپنا نقصان تو کوئی بھی نہیں چاہتا سو منافع بخش فیصلوں کیلئے چند باتیں جتنی جلدی سیکھ لیں اُتنا ہی اچھا ہے، یہ باتیں آپ کی زندگی میں مزید آسانی کا سبب بنیں گی۔
آپ نے اکثر لوگوں سے سنا ہو گا کہ ہمیں زندگی میں کوئی موقع نہیں ملا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہ فرض کر رکھاہے کہ ’موقع‘ کے دو ہاتھ، کان، بازو اور ٹانگیں ہوتی ہیں اور اُس نے سوٹ پہنا ہوتا ہے اور وہ دروازے پر آ کر دستک دے کر کہتا ہے کہ ’السلام علیکم، مزاج بخیر، میں موقع ہوں، مجھے استعمال کر لیں۔‘ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، لوگوں کو زندگی میں موقعے ملتے رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ موقع شناس ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔ بعض اوقات یہ موقعے کچے پکے ہوتے ہیں سو انہیں پکانا پڑتا ہے، لیکن ہم اِس کا تردُّد نہیں کرتے کیونکہ ہمیں پکی پکائی کھیر چاہیے ہوتی ہے، اِس لالچ میں ہم اچھا خاصا موقع گنوا بیٹھتے ہیں۔کسی موقع کا دانشمندی سے فائدہ نہ اٹھانا بھی ایک قسم کا فیصلہ ہی ہوتا ہے اِس لیے اِس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ کالج یونیورسٹی میں یہ باتیں آسانی سے سمجھ نہیں آتیں، اُس وقت بندہ جوانی کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، لیکن اصل میں وہی وقت ہوتا ہے اِن باتوں کو پلے باندھنے کا۔
مشہور چینی فلسفی سن زو کا قول ہے ’’دانشمند جنگجو حتّی الاِمکان جنگ سے اجتناب کرے گا۔‘‘ زندگی میں اکثر لڑائیاں ہم خواہ مخواہ اپنے سر لے لیتے ہیں۔ لڑائی کے وقت لگتا ہے کہ اگر ہم نے آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک نہ لیا تو شاید اُس سے ہماری غیرت اور ’مردانگی‘ پر سوال اٹھے گا۔ لوگ کیا کہیں گے! اگر آپ کو کہا جائے کہ آج کی تاریخ میں یاد کریں ماضی میں وہ کون سا لمحہ تھا جب آپ نے کسی سے لڑائی کی تھی اور اُس کی وجہ کیا تھی تو شاید آپ کو یاد بھی نہ ہو، اور اگر آج آپ سے کہا جائے کہ وہی منظر ابھی دوبارہ تخلیق کیا جاتا ہے تو کیا آپ اسی طرح لڑائی میں کود پڑیں گے تو نوّے فیصد اِمکان یہی ہے کہ آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات اِس سے زیادہ وضاحت کی متقاضی نہیں۔
ایک بات جس کی مجھے بہت دیر سے سمجھ آئی وہ Dunning Kuger Effect تھا، یعنی نالائق لوگ خود کو قابل سمجھتے ہیں اور واقعتاً قابل لوگ اپنی صلاحیتوں کے بارے میں پُر اعتماد نہیں ہوتے۔ مدعا یہ ہے کہ اپنی اور دوسروں کی صلاحیت کو پہچانیں، نہ اپنے بارے میں غلو سے کام لیں اور نہ ہی خود کو کمتر سمجھیں، دوسروں کے بارے میں بھی یہی کلیہ اپنائیں۔ جب آپ خود کو اور دوسروں کو میرٹ پر پرکھیں گے تو فائدہ اپنا ہو گا، کسی کو قابل تسلیم کرنے سے آپ کی عزت میں کمی نہیں ہوگی اور اپنے آپ کو خواہ مخواہ ننگِ اسلاف لکھنے سے لوگ آپ کو عاجز نہیں سمجھیں گے بلکہ ننگِ اسلاف ہی کہیں گے۔
ہم اپنے بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ فضول خرچی بُری عادت ہے اور بچت کرنی چاہیے مگر اِس کا عملی طریقہ نہیں بتاتے۔ ایک چیز ہوتی ہے Compulsory Saving یعنی جبری بچت، آپ کی آمدن چاہے کتنی ہی کم کیوں نہ ہو اُس کا ایک حصہ ضرور پس انداز کریں۔ ہمارے ہاں یہ کام کمیٹی ڈال کے کیا جاتا ہے، جو کہ مناسب بات ہے مگر اِس کا اصل طریقہ یہ ہے کہ آپ ہر ماہ پس انداز کی ہوئی رقم کسی پنشن فنڈ میں اِنویسٹ کر دیں۔ ایک نوجوان جس نے ابھی اپنا کیرئیر شروع کیا ہے اگر آج سے یہ چھوٹی موٹی سرمایہ کاری شروع کر دے تو پندرہ سال میں اُس کے پاس اچھی خاصی رقم اکٹھی ہو جائے گی۔ بظاہر پندرہ برس بہت طویل عرصہ لگتا ہے مگر یہ کام اگر بیس سال کی عمر میں شروع کیا جائے تو آئیڈیل ہے، لیکن جب بھی شروع کریں ٹھیک ہے۔
آخری بات۔ بھیڑ چال، اِس سے اجتناب کریں، انگریزی میں اِس کیلئے ترکیب استعمال ہوتی ہے Bandwagon Effect۔ یعنی ہم وہی رویے، رسم و رواج، عقائد اور زندگی گزارنے کے طریقے اپنا لیتے ہیں جو اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اپنائے ہوئے دیکھتے ہیں۔ مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ اِس کے علاوہ کوئی طریقہ اپنانے والے کو پاگل سمجھا جائے گا۔ حالانکہ پاگل صرف اسے سمجھا جاتا ہے جو زندگی میں ناکام رہ جاتا ہے، کامیاب بندے کو لوگ پاگل نہیں جینئس کہتے ہیں۔ یہاں زندگیاں گزارنے کا نسخہ وہی ہے کہ پہلے سولہ جماعتیں پاس کرو پھر نوکری تلاش کرو اور نو سے پانچ تک کوہلو کے بیل کی طرح جُت جاؤ۔ اِس دوران سال میں ایک آدھ چکر ناران کاغان کا لگ جائے تو کیا کہنے۔ اِس نسخے سے باہر نکل کر سوچنے میں کوئی حرج نہیں، ہم اپنے بچوں کی گریجویشن اور شادی پر پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں مگر اسے اپنی مرضی کا کام کرنے کیلئے پانچ لاکھ روپےکا رِسک نہیں لینے دیتے۔ اگر ہم یہ پانچ لاکھ اُس کی دو سال کی فیس سمجھ لیں تو یقین کریں اِس کا فائدہ ڈگری حاصل کرنے سے کہیں زیادہ ہوگا۔ باقی آپ کی مرضی ہے۔ زندگی تو گزر ہی جائے گی۔
بشکریہ جنگ