سیاست میں”مائنس ون“ جیسے فارمولے کارگرثابت نہیں ہوتے۔ عمران خان صاحب کے خلاف لہٰذا گزرے جمعہ کے دن الیکشن کمیشن کی جانب سے سنایا فیصلہ انہیں پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے غائب نہیں کر پائے گا۔توشہ خانے سے لئے تحائف کی بنیاد پر عمران خان صاحب کی ہوئی ”نااہلی“ اتنی سنگین بھی نہیں جو مثال کے طورپر نواز شریف صاحب کا مقدر ہوئی۔پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے نواز شریف کو اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لینے کے بعد ”تاحیات“ کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل ٹھہرادیا تھا۔جو فیصلہ آیا اس کے خلاف اپیل کی گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔
عمران خان صاحب ان کے برعکس تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہونے کے بعد اپنے وعدے کے مطابق مزید ”خطرے ناک“ ہوچکے ہیں۔ ان کی جارحانہ حکمت عملی پنجاب اسمبلی کی ”لوٹوں“ سے خالی کروائی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو حیران کن حد تک کامیاب کروانے کے کام آئی۔حال ہی میں قومی اسمبلی کی جن آٹھ نشستوں پر انتخاب ہوئے ان میں سے سات پر عمران خان صاحب بذاتِ خود امیدوار بن گئے۔فقط ایک پر ناکام رہے۔انتخابی میدان میں مضبوط تر ہونے کے علاوہ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ نااہلی کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں مو¿ثر دلائل کی بدولت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بالآخر بے گناہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔قصہ مختصر آنے والے کئی دنوں تک وہ سیاسی میدان میں سرپٹ دوڑتے رہیں گے۔
ٹھوس سیاسی بنیادوں پر خود کو میسر برتری کو مگر عمران خان صاحب کماحقہ انداز میں مزید کامیابیوں کے حصول کے لئے بروئے کار لانے کو آمادہ نظر نہیں آرہے۔ریاستی اداروں پر احتجاجی سیاست کے ذریعے دباﺅ بڑھاتے ہوئے ”نیوٹرل“ کو مجبور کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے ”تحریری آئین“ میں طے شدہ ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے فوری انتخاب کے انعقاد کے لئے کلیدی کردار ادا کریں۔اسی باعث یہ فیصلہ منظر عام پر لائے ہیں کہ آئندہ جمعرات یا جمعہ کے دن وہ اسلام آباد پر ”لانگ مارچ“ کی حتمی تاریخ کا اعلان کردیں گے۔
ریاستی اداروں کو لانگ مارچ کی تڑی لگاتے ہوئے وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے کہ جمعہ کی سہ پہر جب ان کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کا اعلان ہوا تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کا ماحول بن نہیں پایا۔ اِکادُکا مقامات پر ٹولیوں کی صورت ان کے حامی جمع ہوئے۔ شہروں میں معمول کی زندگی مگر رواں رہی۔ بالآخر مایوس ہوکر ان کے حامی گھروں کو لوٹ گئے۔ راولپنڈی کو اسلام آباد اور پشاور سے ملانے والے راستوں پر کچھ دیر گڑبڑ رہی۔چند گھنٹوں بعد مگر معمول کی ٹریفک بحال ہوگئی۔
جمعہ کے دن الیکشن کمیشن کی جانب سے سنائے فیصلے کے خلاف ان کے حامیوں نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا اس کا منطقی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے عمران خان صاحب کو فی الوقت ”لانگ مارچ“ کی بابت حتمی تاریخ کے اعلان سے گریز کرنا چاہیے تھا۔جمعہ کے روز سنائے فیصلے کی وجوہات اب 36صفحات پر مشتمل دستاویز کی صورت یہ کالم لکھنے تک سرکاری طورپر نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے سامنے آگئی ہیں۔ان پر اعتبار کریں تو مذکورہ فیصلہ واضح انداز میں یہ عندیہ دے رہا ہے کہ معاملہ عمران خان صاحب کو محض موجودہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم یا De-Seatکرنے پر ہی ختم نہیں ہوا۔اس اسمبلی سے تو وہ ویسے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد کی اصل مشکلات کا آغاز اس وقت ہوگا جب توشہ خانہ سے جڑی تفصیلات کی بنیاد پر الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کرتے ہوئے انہیں ”بدعنوانی‘کے الزامات کے تحت سزا دلوانے کے علاوہ آئندہ انتخاب میں حصہ لینے کے لئے بھی ”نااہل“ ٹھہرائے جانے کی کوشش کرے گا۔عمران صاحب اس عمل کے باعث گرفتار بھی ہوسکتے ہیں۔جس کے بعد ضمانتوں کے حصول کے لئے طویل عدالتی جنگ کا آغاز ہوجائے گا۔
انتہائی عجلت میںلانگ مارچ کے ذریعے ”تخت یا تختہ“ والے معرکے میں توانائی ضائع کرنے کے بجائے عمران خان صاحب کو صدر مملکت کی معاونت سے ”کچھ لو اورکچھ دو“ کی بنیاد پر مقتدر قوتوں سے بیک ڈور مذاکرات جاری رکھنا ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپیل کی سماعت ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا کی توجہ عمران خان صاحب پر مرکوز رکھے گی۔اس کی بدولت وہ یہ تاثر اجاگر کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ ان کی مخالف قوتیں یکجا ہوکر انہیں سیاسی میدان سے ”غیر سیاسی ہتھکنڈے“ اختیار کرتے ہوئے باہر رکھنا چاہ رہی ہیں۔یہ تاثر ان کے حامیوں کو یقین دلائے گا کہ عمران خان صاحب سیاسی میدان میں ناقابل تسخیر بن چکے ہیں۔اسی باعث ان کے مخالفین دیگر حربے اختیار کرنے کو مجبور ہوئے۔
لانگ مارچ کے ذریعے تخت یا تختہ والے معرکے کی جانب بڑھتے ہوئے عمران خان صاحب اس بنیادی حقیقت کو بھی نظرانداز کئے ہوئے ہیں کہ پاکستا ن کی Deep Stateیا ”دریں دولت“ کا اصل مسئلہ ان دنوں پاکستان کی اقتصادی مشکلات ہیں۔پاکستان یقینا دیوالیہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ شہباز حکومت نے مفتاح اسماعیل کے ذریعے عوام کے لئے قطعاََ ناقابل قبول اقدامات لیتے ہوئے آئی ایم ایف کو رام کیا۔ آئی ایم ایف سے آئی رقم مگر ہماری معیشت کی بحالی کے لئے کافی نہیں ہے۔ہمیں عالمی اداروں اور دوست ممالک سے ”مزید“ کی ضرورت ہے۔مون سون کی ریکارڈ ساز بارشیں سندھ اور بلوچستان میں جو تباہی لائی ہیں اس نے عالمی اداروں کو ہمارے لئے فکر مند بنایا ہے۔ان کی بھرپور توجہ مگر ان مختلف النوع بحرانوں پر مرکوز ہے جو روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی بدولت پاکستان جیسے کئی ممالک میں غریب کا زندہ رہنا بھی ناممکن بناسکتے ہیں۔عالمی اداروں کے علاوہ ہماری ریاست کو پاکستان کے دیرینہ دوست عوامی جمہوریہ چین سے بھی ٹھوس توقعات ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف اگلے ماہ کا آغاز ہوتے ہی وہاں جائیں گے۔ہمارے ریاستی ادارے ہرگز نہیں چاہیں گے کہ شہباز شریف ایسے ماحول میں چین کو پاکستان میں طویل المدت اقتصادی منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کو مائل کرنے کی کوشش کریں جب ان کی اپنی حکومت ”چل چلاﺅ“ کا نشانہ ہوئی نظر آئے۔