کرائمیا کی بندرگاہ سواستوپول میں لنگر انداز بحیرہِ اسود کے روسی بیڑے کو گزرے سنیچر سولہ ڈرونز نے ایک ساتھ نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی۔
اس کے ردِعمل میں روس نے اقوامِ متحدہ اور ترکی کی مدد سے ہونے والے اس تین ماہ پرانے سمجھوتے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا جس کے تحت یوکرین کو چار ماہ کے اندر نوے لاکھ ٹن گندم افریقہ اور ایشیا بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس کا غذائی فائدہ فاقہ کشی سے دوچار ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو ہونا تھا۔
سمجھوتے کی معیاد انیس نومبر تک کے لیے مگر قابلِ توسیع ہے۔البتہ روس کی جانب سے یکطرفہ اعلانِ لاتعلقی کے بعد یوکرینی گندم اٹھانے والے ایک سو چھہتر بحری جہاز جہاں جہاں تھے وہیں کھڑے رہ گئے ہیں۔
ویسے تو محبت اور جنگ میں سب جائز کہا جاتا۔ مگر اس دائرے میں خوراک بھی ہتھیار بن جائے گی ؟ پرانے زمانے کے جنگی محاصروں میں تو یہ عام رواج تھا مگر اکیسویں صدی میں اس مجرب نسخے کے اثرات محض جنگ کرنے والے ممالک پر نہیں بلکہ ہزاروں میل کے دائرے میں محسوس ہو رہے ہیں۔ ’’بندر کی بلا تویلے کے سر ‘‘کا مطلب لگ بھگ پوری پسماندہ دنیا کو خوب سمجھ میں آ رہا ہے۔
روس اور یوکرین کی گندمی تجارت کو جنگی کاروائیوں کے دائرے سے باہر رکھنے کا فیصلہ ہوا تو عالمی قیمت میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی ہو گئی۔
لیکن تازہ روسی بائیکاٹ کے بعد گندم کا نرخ پھر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جن ممالک کے پاس پیسے نہیں وہ بھی اور جن کے پاس مہنگی گندم خریدنے کی استطاعت ہے وہ بھی قلت و مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں کے مابین جانے کتنے عرصے کے لیے مزید پھنس جائیں گے اور ان میں سے کچھ ممالک تو شاید خود بھی آٹا بن جائیں۔
پاکستان اگرچہ اس سال باہر سے پانچ سے آٹھ لاکھ ٹن گندم حفظِ ماتقدم کے طور پر منگوانے کی سوچ رہا ہے مگر پاکستان کو روس یوکرین جنگ سے براہِ راست اتنا غذائی نقصان نہیں جتنا موجودہ سیلاب کے بعد اگلے چھ ماہ میں ہونے والا ہے۔ویسے پاکستان کو موجودہ سیلابی آفت کی بھی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
اس سے پہلے ہی چالیس فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کی لپیٹ میں تھی۔پانچ برس تک کے ہر تیسرے بچے کا وزن ناکافی غذائیت کے نتیجے میں ضرورت سے کم ہے۔ بچے کا قد کاٹھ جس قدرتی رفتار سے بڑھنا چاہیے پچیس فیصد پاکستانی بچے اس رفتار سے محروم ہیں۔
دونوں معاملات میں بلوچستان ، سندھ اور صوبہ خیبر پختون خوا کے قبائلی اضلاع علی الترتیب اول دوم اور سوم درجے پر ہیں اور یہ کسی این جی او کے نہیں بلکہ سرکاری وزارتِ بہبودِ آبادی کے دو ہزار اٹھارہ میں جاری اعداد و شمار ہیں۔ سوچیے کہ موجودہ سیلاب نے ان اعداد و شمار کے ساتھ مزید کیا کھلواڑ کیا ہوگا۔
جولائی سے ستمبر تک کی سہ ماہی میں اکیاسی اضلاع میں بارشوں اور طغیانی کے سبب اٹھہتر ہزار مربع کلومیٹر قابلِ کاشت زمین زیرِ آب آئی (یہ رقبہ چیک جمہوریہ کے برابر ہے ۔)
یوں سمجھیے کہ اسی فیصد زیرِ کاشت یا کھڑی فصل کو نقصان پہنچا۔زرعی اجناس کی ترسیل میں کام آنے والی چھ ہزار کلومیٹر طویل سڑکیں اور راستے ناقابلِ استعمال ہو گئے۔ اس معاملے میں سندھ اور جنوبی بلوچستان دیگر متاثر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بدقسمت ثابت ہوئے۔
اقوامِ متحدہ نے حالیہ قدرتی آفت کے سبب پاکستان کے معاشی نقصان کا تخمینہ لگ بھگ چالیس ارب ڈالر لگایا ہے۔پاکستان پہلے ہی گزشتہ ایک برس سے افراطِ زر کے بخار میں پھک رہا ہے۔سیلاب کے بعد خوراک کی قیمتوں میں چار سے پانچ گنا مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
اگرچہ افغانستان اور ایران سے پیاز ، ٹماٹر جیسی اجناس منگوائی گئی ہیں مگر فصل اور راستے زیرِ آب آنے کے سبب کھیت سے منڈی تک مسلسل رسائی بحال ہونے میں سال بھر نہیں تو کئی مہینے ضرور درکار ہیں۔ اس بیچ حکومت کو سنگین چیلنج درپیش ہے کہ کھانے پینے کی ضروری اشیا کے نرخ کس طرح غبارہ بننے سے روکے۔
کہنے کو پاکستان گندم پیدا کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے مگر نومبر اور دسمبر میں گندم کی روایتی کاشت ایک سنگین مرحلہ ہے۔ناکامی کے نتائج سے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی متاثر ہو گا جہاں پہلے ہی غذائی حالت چوپٹ ہے، اور اس کے ممکنہ معاشی و سماجی نتائج کی شدت پاکستان کو جھیلنا بھی ناگزیر ہے۔
سیلابوں سے بے خانماں اسی فیصد آبادی کا تعلق زرعی علاقوں سے ہے۔ان کی معاشی حالت پہلے ہی پتلی تھی اور اب واپس لوٹنے اور زمین خشک کرنے کے مسئلے نے رہا سہا خون بھی خشک کر دیا ہے۔ کھڑے پانی سے صرف گھر اور کھیت ہی نہیں نواحی اجناسی منڈیاں بھی ویران ہوئی ہیں، جو تھوڑی بہت نقد آور اجناس، سبزیاں یا پھل سلامت بھی ہیں انھیں بروقت گاہک تک کیسے پہنچایا جائے ؟
اس بیچ اگر کوئی طبقہ مزے میں ہے تو ہمارے وہ آڑھتی بھائی ہیں جن کے پاس نہ صرف یہ بچی کچھی اجناس اونے پونے خریدنے کے لیے سرمایہ بلکہ ذخیرہ کرنے کی سہولتیں بھی میسر ہیں۔ گویا قلت ایک طبقے کے لیے مٹی کو بھی سونا بنا دیتی ہے اور باقیوں کا سونا بھی مٹی کے بھاؤ ہو جاتا ہے۔
کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ شروع ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان مسلسل ابتر ہوتی ماحولیات کی راہ میں پڑنے والے اولین دس ممالک میں شامل ہے۔
اس لیے اب یہ کسی ایک برس کا رونا نہیں رہا۔ عالمی بینک کے گزشتہ برس کے آفاتی کنٹری پروفائل کے مطابق اگلی ایک دہائی میں پاکستان جیسے ممالک کو آبادی میں بڑھوتری اور زرعی اجناس کی پیداوار میں مسلسل کمی کا بحران درپیش رہے گا۔اس کے بعد کیا ہو گا؟ اندازہ خود عالمی بینک کو بھی نہیں یا ہے تو فی الحال بوجوہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔
اس پس منظر اور مستبقل قریب کی تصویر کے ہوتے پاکستان میں لانگ مارچ ، جلد یا بدیر انتخابات اور بیرونی و اندرونی غلامی سے حقیقی آزادی کا حصول سب سے بڑا مسئلہ بتایا جا رہا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ خود فریب ترجیحات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔مگر اتنا جانتا ہوں کہ اگلے چند ماہ کی حقیقی تصویر کچھ یوں بننے جا رہی ہے کہ کیا آئین ، کیا انصاف، کیا جعلی و حقیقی آزادی۔سب راج پاٹ یہیں کے یہیں دھرا رھ جائے گا۔
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
( ساحر )
اگر فیصلہ ساز، یا فیصلہ بگاڑ آنے والے چھ ماہ کے اندر زمین سے کان لگا کے وقت کی دھمک نہیں سن پاتے تو پھر آگے کا مطلع صاف صاف ہے۔
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
( سعدی )