58 فیصد پاکستانی

یہ ایک معمول کی بات ہے کہ سال ختم ہوتے ہی مختلف اداروں کے سروے شایع ہونے لگتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ گیلپ پاکستان ہے۔ یہ دنیا کے تقریباً تمام ملکوں کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھا کرتا ہے اور پھر انھیں سال کے آخری دن جاری کرتا ہے۔

31 دسمبر 2015 کو گیلپ انٹرنیشنل نے امید، اقتصادی رجائیت اور ذاتی مسرت کے بارے میں پاکستان اور دنیا کے دوسرے بہت سے ملکوں کے بارے میں ایک سروے کے نتائج جاری کیے۔
ادارے کے مطابق 2015 میں عالمی سطح پر 38 فیصد لوگوں نے اچھے دنوں کی امید ظاہر کی، اقتصادی ترقی کے بارے میں 23 فیصد افراد پرامید تھے جب کہ 56 فیصد لوگوں نے زندگی کے پرمسرت ہونے پر یقین کا اظہار کیا۔ گیلپ پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 66 فیصد اپنی زندگی سے خوش ہیں جب کہ آنے والے دنوں کے بارے میں 54 فیصد کا خیال ہے کہ وہ بہتر ہوں گے اور 58 فیصد پاکستانیوں کو یقین ہے کہ 2016 میں ان کا ملک اقتصادی طور پر بہتر امکانات رکھتا ہے۔

گیلپ سروے برائے 2015 انفرادی حوالوں سے مرتب کیا گیا تھا لیکن 2015 ایک ایسا سال ہے جو عالمی سطح پر بہت سے سوال چھوڑ گیا۔ اب یہ بات عمومی طور پر کہی جاتی ہے کہ نائن الیون کے سانحے نے دنیا بدل دی۔ اس سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ نیویارک میں ٹوئن ٹاورز کی تباہی نے ہزاروں میل کی دوری پر آباد عراق اور افغانستان کو کھنڈر بنادیا اور افغانستان میں ہونے والے واقعات براہِ راست پاکستان پر اثر انداز ہوئے۔

یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ نائن الیون کی طرح پیرس اور پھر کیلیفورنیا میں ہونے والے خودکش حملوں اور اندھادھند قتل عام کے واقعات نے دنیا کو بدل دیا۔ یہ افسوس کی بات تھی کہ یہ دونوں واقعات مسلمانوں کی طرف اشارے کرتے تھے۔

جو سالہا سال کے لیے مغرب گئے، اور وہیں آباد ہوگئے تھے، ان میں سے بہت سے خاندان تو ایسے تھے جن کی تیسری نسل وہاں پیدا ہوئی تھی، اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی تھی اور ان میں سے کچھ اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ پیرس حملوں کے بعد ان لوگوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ اس نازک مرحلے پر اینجلا مرکل، بارک اوباما، ہلیری کلنٹن اور بعض دوسرے مغربی سیاستدانوں اور مدبروں نے مسلمانوں کے خلاف عام سفید فام شہریوں کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کی۔

جرمنی نے شامی مسلمان پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ اینجلا مرکل نے اندرونی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے شامی پناہ گزینوں کے ساتھ انسانی سلوک کیا۔ اگلے انتخابات میں ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کا یہ فیصلہ سیاست میں ان کے مستقبل پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ پیرس حملے تھے جنہوں نے یورپ اور امریکا میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں کو اسلامو فوبیا بھڑکانے کا موقع دیا اور امریکی صدارتی انتخابات کے ایک ممکنہ ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کو یہ نادر خیال آیا کہ وہ امریکا سے ہر مسلمان کو نکال دینے کا انتہاپسندانہ موقف اختیار کریں۔

ان کا خیال تھا کہ ان کی اس انتہاپسندی کی بہت پذیرائی ہوگی اور وہ ری پبلکن حلقوں میں ہوئی بھی لیکن ان کے بیانات کی مخالفت اور مذمت مرکزی دھارے کے امریکی سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے کی۔ یہ وہ دانش مند لوگ ہیں جنھیں اس کا ادراک ہے کہ اب نفرت، جنون اور جنگوں کا زمانہ گزرچکا۔ دنیا اب مذہب ، مسلک ، رنگ و نسل کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے خانوں میں بانٹی نہیں جاسکتی۔

مغرب کی بودوباش اور طرز زندگی کو ناپسندیدگی سے دیکھنے اور اس کا اظہار کرنے والوں کی کمی نہیں جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں اور وہاں اسلامی طرز حیات نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان خیالات کے ساتھ وہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس کیوں نہیں چلے جاتے جہاں وہ آزادانہ اپنا پسندیدہ طرز زندگی نافذ کرسکتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس ان سوالوں کے ٹھوس جوابات نہیں ہوتے۔

میں ہونے والے ان واقعات کی گونج بہت دور تک جائے گی۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ مسلم دنیا کو اس کی زیادہ قیمت ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ مشکل یہ ہے کہ ہم جو برصغیر میں چین آرام سے بیٹھے ہیں، یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جو آگ بھڑک رہی ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان دنیا کے تمام مسلمانوں کو پہنچے گا۔

2015میں شام سے جس طرح لاکھوں خانماں برباد پناہ کی تلاش میں نکلے، ان کا راستہ جس سختی سے مسلمان ملکوں نے روکا، اس کے بعد بہت سے مسلمان ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھتے ہوئے پائے گئے کہ کیا یہی ’مسلم امہ‘ ہے جس نے اپنے لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کیں؟

بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں 2015 کا ایک نہایت اہم واقعہ اپریل 2015 میں پیش آیا جب فرانس، جرمنی، یورپی یونین، ایران، برطانیہ، روس، چین اور امریکا کے وزرائے خارجہ اور خارجہ امور کے ماہرین جو عرصے سے ایران اور امریکا کے درمیان نیوکلیائی معاہدے کی کوششیں کررہے تھے، اس میں آخرکار کامیاب ہوگئے۔ دوسری اپریل 2015 کو اعلان کیا گیا کہ ’’آج ہم ایک حتمی اقدام پر پہنچے ہیں‘‘ اس کے ساتھ ہی ایران کے وزیر خارجہ کا یہ بیان آگیا کہ ’’ہم کسی معاہدے تک نہیں پہنچے ہیں چنانچہ ہم پر کسی نوعیت کی پابندی نہیں ہے‘‘۔

خدا خدا کرکے 14 جولائی 2015 کو اس تاریخی معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں سوئٹزرلینڈ پی 1+5 ممالک نے ایران پر سالہا سال سے عائد اقتصادی پابندیوں پر نرمی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد بھی بعض ایرانی حکام کی جانب سے سخت بیانات آئے اور 2015کے نصف آخر میں اس معاہدے کے حوالے سے متضاد بیانات کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ سنگین معاملہ شاید 2016 میں واقعی طے پا جائے۔ اس پر عمل ہونا خطے کے لیے ایک نیک شگون سے کم نہ ہوگا، جس کا آغاز 2015 میں ہوا۔

اسی طرح جب ہم پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے معاملات 2015میں طے پائے جن کے دوررس اثرات یہاں کے عوام کی زندگیوں پر مرتب ہوں گے۔ چینی صدر کی پاکستان آمد جو دراصل 2014 میں ہونی تھی لیکن ایک دھرنے کے سبب موخر کی گئی تھی، وہ آخرکار ممکن ہوئی اور 20 اپریل کو چینی صدر اسلام آباد پہنچے اور اسی روز ویڈیو لنک کے ذریعے چین پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پی ای سی) پروجیکٹ کا افتتاح ہوا۔ اس کے لیے چین 46 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔

کئی ہفتوں تک اس معاہدے پر پاکستان میں خوشیاں منائی گئیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی گئی۔ ان دنوں سی پی ای سی کے حوالے سے کچھ حلقوں کے تحفظات ہیں اور اس حوالے سے روزانہ گرما گرم بیانات ہم پڑھتے اور سنتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس اقتصادی راہداری پر خواہ کتنا ہی شور مچایا جائے لیکن یہ تکمیل کو پہنچے گی کیونکہ یہ پاکستان کی معاشی زندگی کا معاملہ ہے۔

منصوبے سے خطے اور دنیا کے کم از کم 3 ارب لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے۔ جو عناصر اس عظیم منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے عوام بالآخر انھیں مسترد کردیں گے۔ وہ زمانے گئے جب سیاست میں مخالفت برائے مخالفت کا اصول چلا کرتا تھا۔ اب عوام حقیقت پسند ہوچکے ہیں، لہٰذا بے جا مخالفت کا فائدہ نہیں الٹا نقصان ہوتا ہے۔

2015کے آخری دنوں میں ایک ناقابل یقین واقعہ رونما ہوا، یہ ہندوستانی وزیراعظم کی لاہور آمد تھی۔ کہنے والوں نے بتایا کہ کابل سے لوٹتے ہوئے اچانک مودی صاحب کو خیال آیا کہ کیوں نہ لاہور میں پاکستانی وزیراعظم سے ایک غیر رسمی ملاقات کرلی جائے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ پاکستانیوں کو اطلاع دی گئی کہ ہندوستانی وزیراعظم کا طیارہ لاہور اترنے والا ہے۔ میاں صاحب اس وقت مریم کی بیٹی اور اپنی نواسی مہرالنسا کی مہندی کے لیے چشم براہ تھے۔

اس کے بعد ٹیلی وژن کیمروں نے دیکھا کہ کچھ دنوں پہلے مودی صاحب کی طرف سے جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا تھا، اس کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اس گرم جوشی سے گلے لگایا کہ بے ساختہ یہ مصرعہ یاد آیا کہ ’آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘۔ مودی صاحب نے میاں صاحب کی ضعیف والدہ کے پیر چھوئے، ان کی آشیرباد لی، میاں صاحب کی والدہ چند دنوں پہلے شسما سوراج سے مل کر اپنے آبائی وطن کو یاد کرتی رہی تھیں، اب انھوں نے مودی صاحب کو بھی یاد دلایا کہ لڑائی جھگڑا چھوڑو، اچھے پڑوسیوں کی طرح مل جل کر رہو اور منقسم خاندانوں کے لیے سفری سہولتیں پیدا کرو، دونوں طرف کے بوڑھوں کی دعائیں لو۔

پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دہشت گردوں کے حملے سے دل میں ایک گرہ تو لگ گئی ہے لیکن دونوں طرف کے حکمران اب معاملہ فہم ہوچکے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ ایک بار پھر خطے میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، ایسی باتیں جب سمجھ میں آجائیں تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں پاکستان کے ان 58 فیصد لوگوں میں شامل ہوں جو سمجھتے ہیں کہ آنے والا وقت پاکستان کے لیے بہترین امکانات رکھتا ہے۔

بشکریہ ایکسپیریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے