انسان اگر اپنے وجود اور جذبات پر ذرا بھی سوچیں تو فوراً سے پہلے اس پر واضح ہو جائے گا کہ وہ سراپا ایک حساس مخلوق ہے۔ انسان، جس کے پورے وجود میں احساس کی آمیزش بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ وہ غریب و کمزور کو دیکھتا ہے تو اس کے اندر بجلی کی سی تیزی سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے، لائق و فائق انسان سامنے ہو تو احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، کوئی بزرگ یا معتبر ہستی پاس ہو تو دل عقیدت کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور اگر کہیں نگاہوں کے سامنے کسی حسین و جمیل نمونے کی آمد ہو جائے تو دل کے بے شمار خانوں میں محبت و مانوسیت کے نرم و نازک احساسات ابل آتے ہیں اور یوں سیکنڈوں میں موڈ خوش گوار بن جاتا ہے۔ اس طرح بھوک لگے تو کھانے کی طلب، پیاس بجھانے کو پانی کی طلب، خطرہ لاحق ہونے پر تحفظ کے لیے دوڑ دھوپ اور اگر کہیں فلاح و بہبود، ترقی و خوشحالی اور بہتری کے مواقع سر اٹھائے تو پانے کی جد و جہد میں لگنا یہ ساری وہ علامات ہیں جو انسان کے ایک حساس مخلوق ہونے کی گواہی دے رہی ہیں۔ احساس کی صحت اگر بحال ہو تو یہ انسان کو نہ صرف نقصان، ضرر یا تکلیف دینے سے روکے رکھتا ہے بلکہ یہ طرح طرح کی علتوں کو، انسان کے لیے اگر کہیں پائی جاتی ہو تو ان کا راستہ روکنا ممکن بھی بنا دیتا ہے۔
اس حقیقت کے ہوتے ہوئے بھی کہ انسان ایک بیش قیمت جوہر یعنی احساس سے بڑے پیمانے پر سرفراز کر دیا گیا ہے کے باوجود جن حال احوال یا ساز و سامان میں اسے رکھا گیا ہے وہ سادہ و یک رنگ بالکل نہیں۔ ہزاروں برس کی تاریخ میں، مختلف وجوہ نے مل کر انسانوں کے نظریات، مفادات، نفسیات اور سوچوں میں اختلاف کی گہری لکیریں کھینچ لیے ہیں جنہوں نے آگے چل کر رویوں میں خوب پختگی پائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ایک بے حد پیچیدہ ہستی میں بدل گیا ہے۔ وہ محبت بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نفرت بھی، وہ ترحم بھی کرتا ہے اور باقاعدہ شقاوت کے مظاہرے بھی، وہ صبح سے لے کر شام تک خیر کے کاموں میں ہاتھ بھی ڈالتا ہے اور ارادی طور پر شر کے اسباب میں بھی، وہ امن پسند بھی ہے اور جنگ کے لیے آمادہ اور تیار بھی۔ تو یہ دراصل اندرونی احساسات اور بیرونی احوال کے درمیان ہزاروں وجوہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والی وہ بعد ہے جس نے انسانوں کو تضادات کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جذباتی مخلوق کے طور پر، ہم احساسات کی ایک وسیع رینج کے حامل ہیں جو کہ ہمارے بنیادی تصورات کو تشکیل دیتے ہیں، فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ کہ ہمارے باطنی جواہر کی وضاحت بھی کرتے ہیں یعنی دکھ کی تلخیوں سے لے کر خوشی کی شیرنیوں تک انسان بے شمار اندرونی احساسات سے قدرتی طور پر جڑا ہے۔
احساس کا جوہر ہمارے گرد و پیش کی دنیا سے ہمارے خیالات، جذبات، طرز عمل اور تعامل کے پیچھے سب سے طاقتور محرک ہے۔ یہ وہ الہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے جذبات و کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں، اپنے اعمال کی درستگی کو چیک کرتے ہیں اور یہ کہ اپنے نقطہ ہائے نظر کو تشکیل دیتے ہیں۔ احساس کی بدولت محض ایک وقتی ردعمل پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانی نفسیات کے بنیادی اجزاء کو باہم جوڑ کر رکھتا ہے جو ہماری زندگیوں اور سرگرمیوں کو گہرا معنی عطا کر رہا ہے۔ احساس اگر صحت مند ہو تو یہ ہمارے فرائض و ذمہ داریوں اور حقوق و اختیارات کے درمیان پل کا کام کرتا ہے جو کہ ہمیں نہ صرف انسان کے انفرادی اور اجتماعی احوال کے اندر موجود پیچیدگیوں کا ادراک کراتا ہے بلکہ وہ بصیرت بھی عطا کرتا ہے کہ جس سے ہم یہ اندازہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ ان پیچیدگیوں کی اصلاح، نظر اندازی اور برداشت کی صحیح حدود کون سی ہیں۔
انسانی احساس ایک وسیع اور متنوع باطنی دائرے کا نام ہے، جس میں ایک وسیع رینج شامل ہے یعنی محبت، ترحم، خوشی اور ادراک کے مثبت مظاہر سے لے کر شدت، شقاوت، خوف، نفرت اور غم جیسے منفی جذبات تک، ہم سب احساسات کے ایک رنگ بہ رنگ پیکج دلوں میں لے کر شاہراہِ حیات پر مسلسل دوڑ رہے ہیں یہاں تک کہ کسی مقام پر حضرت عزرائیل علیہ السلام زندگی سے ہمارا ناطہ کاٹ لیں اور ہم اس دنیا سے کہیں اور کوچ کر لیں۔ احساسات کا یہ قدرتی، دیرینہ اور عمیق پیکج ہر موقع اور مقام پہ انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ احساس کا یہ قدرتی پیکج ہمیں دنیا کے ساتھ خوب گہرے اور ہر طرف پھیلے مختلف طریقوں سے منسلک ہونے کی سہولت دیتا ہے۔
احساس فیصلہ سازی کے عمل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، جو کہ ہمیں ہماری حدود، مناسبت، معیار اور اعمال کی موزونیت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ ہمارا احساس ہماری ترجیحات اور رجحانات پر مسلسل اثر انداز ہوتا ہے اور یہ گویا اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے مزید برآں ہمارے فیصلہ سازی کے مختلف نمونوں کی شیرازہ بندی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عقل و نقل، اقدار و مفاد اور خیر و شر کے حوالے سے انسانی ادراک کو توازن فراہم کرنا احساس کا کام ہے۔ یہ ایک نازک عمل ہے جو ہمیں طرح طرح کی پیچیدگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انصاف تک پہنچنے کی سہولت دیتا ہے۔
اس طرح احساس ہمارے باہمی تعلقات کے لیے ایک ٹھوس بنیاد ہے۔ یہ جو ہمدردی، خیر خواہی، خلوص اور محبت کے گہرے روابط انسانوں کے درمیان قائم ہیں ان کی بنیاد دراصل احساس ہے۔ احساس اس حقیقت کی واضح علامت ہے کہ انسان بنیادی طور پر ایک اخلاقی، روحانی، تہذیبی اور سماجی مخلوق ہے۔ دوسروں کی توقعات، حقوق اور حیثیت کو دیکھنے، سمجھنے اور ان کے مطابق حال سلوک اور رویے اپنانا ہمارے اشرف المخلوقات ہونے پر ایک واضح دلیل ہے۔ جو ہمیں بامعنی تعلقات استوار کرنے، خیر خواہی سے پیش آنے، ہمدردی کا مظاہرہ کرنے اور انسانی تعاملات میں در آنے والی پیچیدگیوں کو نظر انداز کرنے کے قابل بناتا ہے۔
کارگاہِ حیات میں خود اپنے آپ اور دوسروں کے جذبات و احوال کو سمجھنے، ان کا مناسب ادراک کرنے اور پھر مختلف سیاق و سباق میں موزوں روش اختیار کرنے کی صلاحیت ہو، ذاتی ترقی و بہتری کا ہدف ہو یا پھر اجتماعی فلاح و بہبود کا مقصد، نجی زندگی کے دائرے ہو یا پھر پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی حقیقت یہ ہے کہ صحت مند احساس نے ہی ہمارے تمام معاملات کے طنابیں خوب تھام رکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم خود آگاہی، ہمہ جہت ہمدردی اور باہمی مطلوب لچک کے تقاضوں کو دیکھ ہی نہیں سکتے جب تک احساس کی روشنی اور خوشبو سے ہمارا قلب و نظر خوب روشن نہ رہیں۔ یاد رکھیں احساس ہمیں زیادہ شعوری فیصلے لینے، گہرے روابط جوڑنے اور زندگی میں مطلوبہ جذباتی توازن سے جینے کی طاقت دیتا ہے۔ احساس ایک عالمگیر انسانی جوہر ہے۔ یہ رنگ و نسل، مذہب و مسلک اور زبان و علاقے کی حدود و قیود سے بالاتر ہوتا ہے۔ اگر چہ ان حدود و قیود سے کسی حد تک احساس کے مظاہر پر فرق پڑتا ہے لیکن اس کا جوہر بہر صورت ایک ہی ہے۔ احساس کی یہ عالمگیریت ہی انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ مختلف ہونے کے باوجود مشترک قدروں اور مفاد کے لیے باہم متحد ہو سکتے ہیں اور یہ کہ وسیع تر انسانی مفاد کے لیے مل جل کر کام کر سکتے ہیں۔
جس طرح انسان زندگی اور موت، صحت و بیماری نیز صالحیت اور شقاوت کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے عین اسی طرح احساس پر بھی زندگی اور موت، صحت و ناتوانی اور صالحیت و شقاوت کے ادوار آتے رہتے ہیں۔ یہ جو دنیا میں ظلم اور ناانصافی کا بازار ہر طرف گرم ہے، یہ جو بے حسی اور لاتعلقی کا دور دورہ ہے، یہ جو غفلت اور لاپرواہی کی نفسیات چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہیں، یہ جو حدود و قیود اور حقوق و فرائض کی خطوط بری طرح خلط ملط ہو کر رہ گئی ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہی تو ہے کہ انسان نے احساس کا اثاثہ کہیں گم کر دیا ہے اور یہی تہی دامنی ہے جس سے اب انسان مادی ترقی اور خوشحالی کے باوجود لاکھوں کروڑوں مسائل اور پیچیدگیوں کا ایسا شکار ہوا کہ وہ لطف و سکون اور انصاف و اخلاق کے لاکھوں کروڑوں ذائقوں سے بری طرح محروم ہو چکا ہے۔ وہ مایوسی اور بے چینی کے عالم میں ہر طرف مارا مارا پھر رہا ہے لیکن اپنے اندر موجود خدائی خزانے یعنی احساس کی زندگی اور صحت پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہا۔
اے کاش انسان اپنے دل میں احساس کے بجھے دیے کو پھر سے روشن کر دیں تو بخدا اس کی زندگی نہ صرف سکون و اطمینان سے بھر جائے گی بلکہ حقیقی فلاح و بہبود سے ہم کنار بھی ہو جائے گی اور یوں وہ پھر سے کائنات کی بساط پر اشرف المخلوقات والے مقام پر فائز ہو جائے گا۔ احساس محض ایک خوبی نہیں بلکہ وہ بنیاد ہے جو کہ اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ حقیقت میں "ہم کون ہیں”؟۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے سینوں کو ہمیشہ ایمان اور احساس سے روشن اور آسودہ رکھیں اور انہیں کی طفیل ہمارے رویوں کو انصاف اور ادراک سے ہم آہنگ بھی کہ یہی چیز زندگی کو جواز فراہم کر رہی ہے۔