آج دنیا میں لوگوں نے اتنی تر قی کر لی ہے کہ چاندپر پہنچنے کی مثال بھی پرانی ہوچکی ہے ،تعلیم سےکاروباراورمعاشرتی رکھ رکھاؤتک بہت ساری چیزوں میں انقلابی تبدیلی آچکی ہے لیکن سو چ آج بھی بہت سے لوگوں کی وہ ہی پُرانی ہے آج بھی بہت سے لو گ وہم میں مبتلا رہتے ہیں اور جاہلانہ ،من گھڑت باتوں پر اس طرح یقین کرتے ہیں جیسے وہ باتیں حقیقت پر مبنی ہوں، ان جاہلانہ اعتقادات میں یہ شامل ہیں جنہیں پڑھنے کے بعدان جاہل لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے مثلا بلی اگر میاؤں میاؤں کر رہی ہے تو وہ رور رہی ہے یا کالی بلی راستہ کاٹ دے تو کہتے ہیں کہ کچھ غلط ہو نے والا ہے ۔ بہت سے گھروں میں لڑکیوں کو کا لے کپڑے پہننے نہیں دیتے کہ نصیب خراب ہو جا ئے گا اور اگر کسی کی شادی ہو رہی تو ہو اُس دلھا یا دلھن کے پا س کسی بیوہ یا اور کسی طلاق یافتہ کو جا نے نہیں دیتے،آخر کیو ں ؟
یہ سمجھ سے بلا تر ہے یہ صرف پا کستان ،انڈیا اور بنگلہ دیش میں ہی نہیں بہت سے دوسرے مما لک کے لوگ بھی توہم پر ستی میں مبتلا ہیں بعض معاشروں میں صد یو ں سے نمک کا گرنا بد قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے ہزاروں سال پہلے نمک کیمیا ء ہو تا تھا ،اس لیے یہ قیمتی شے سمجھی جاتی ہے۔3500قبل مسیح قدیم سمیری قوم میں جب کسی کے ہاتھ سے نمک گر جاتا تو بد شگونی خیال کیاجاتا کہ اس عمل نے شیطانی قو توں کو اُکسا دیا ہے اور وہ انسان کے بائیں جانب حملہ آور ہو گی (با یاں بازوکم زور خیال کیا جاتا )اس سے پہلے کہ شیا طین حملہ آور ہوں ،انھیں روکنے کے لیے وہ شخص ازالے کے طور پر اپنے دائیں ہاتھ سے گر ے ہوئے نمک کی چٹکی بھر کر اپنے با ئیں کاندھے پر چھڑکتا تھا یہ رسم مصریوں میں بھی عام تھی ۔
اکثر گھروں کی داخلی دروازوں پر گھو ڑے کی نعل لگی نظر آتی ہے ۔اسے لگا نے والے اس وہم میں مبتلا ہیں کہ اس سے اُن کا گھر شیطانی بلاؤں سے محفوظ رہے گا ۔نعل لگانے کی وجہ کسی کو نہیں معلوم ،لیکن لو گ سُنی سُنا ئی باتوں پر یقین کر کے اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس عمل کر رہے ہیں اس تو ہم پر ستی کی ابتداء یو نان سے ہو ئی ،یہ دراصل یو نانیوں کے دووقائد کا مجموعہ ہے ۔ایک عقیدے کے مطابق لو ہے میں شیطانی قوتوں کو بھگانے کی صلاحیت ہو تی ہے اور دوسرے عقیدے کے تحت اگر لو ہے کو نئے چا ند کی شکل دی جائے تو گھر میں خو ش حالی آتی ہے اور قسمت جا گ جا تی ہے ۔مر چیں اور لیمو ں لٹکانے سے بلائیں دُور رہتی ہیں یہ تو ہم پر ستی زیادہ تر ہندوؤں میں پائی ہے۔آئینہ ٹو ٹے تو سات سال تک قسمت روٹھی رہتی ہے پرانے وقتوں میں آئینہ نایاب ہوا کر تا تھا ۔یہ بازاروں میں آسانی سے دست یاب نہیں ہو تا تھا ،تاہم پرانے طر یقے سے تیار کر دہ آئینے غیر معیاری ہو تے تھے ،جو آسانی سے ٹو ٹ جا تے تھے ،حفاظت کے پیش نظر یہ بات مشہور کر دی گئی کہ آئینہ توڑنے والے کی قسمت اُس سے سات سا ل تک رُوٹھی رہتی ہے ۔
ٹوٹا تارہ اور آرزووں کا پو را ہو نا بر صغیر پاک اور ہند میں ایک اور مشہور توہم پر ستی یہ پائی جاتی ہے کہ ٹو ٹا تارا دیکھ کر اگر کسی چیز کی آرزو کی جائے تو وہ جلد پو ری ہو جا تی ہے ۔ ہا تھوں میں کھجلی دولت مند ی کی نشانی ہیں اس تو ہم پر ستی کی ابتداء بر طا نیہ کے علاقے Saxons سے ہو ئی ،جہا ں کے لو گ یہ محسوس کر تے تھے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں کھجلی ہو تو اسے چاندی سے کھجانے سے چلد راحت ملتی ہے ،اُس زمانے میں چا ند ی قیمتی دھات سمجھی جاتی تھی ،رفتہ ر فتہ اس تصور نے تو ہم پر ستی کا روپ دھا ڑ لیا ،
پھر کہا جانے لگا کہ اگر کسی کے دائیں ہا تھ میں کھجلی ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ عنقریب وہ بہت دولت مند بننے والا ہے،نیک اور بد شگونی کی اصطلا ح پا کستان اور انڈیا میں عام ہیں ۔بہت سے افراد خود سے کسی چیز کو اپنے لیے خوش قسمتی سے جوڑ کر اس پر پختہ یقین کر تے ہیں ،تو ہم پر ستی صر ف عام لو گوں تک محدود نہیں بلکہ معروف شخصیات بھی اس کا شکار نظر آتی ہیں مشہور بھارتی شخصیا ت بھی ان لسٹ میں شامل ہیں ،جن میں بعض نام پڑھ کر حیر ت ہو تی ہے کہ یہ بھی توہم پر ست ہو سکتے ہیں ،مثلاًاداکار سلمان خان اپنے دائیں ہاتھ میں جھولتے بریسلٹ کو خوش قسمتی اور اپنا محافظ سمجھتے ہیں ۔فلم کی شوٹنگ کے دوران بھی اپنی کلائی سے نہیں اتارتے ۔
ریتک روشن اپنے دائیں ہاتھ کے اضافی انگوٹھے کو اپنے لئے خوش قسمتی کا نشان ماننے کو بضد ہے۔ حالاں کہ ان کی یکے بعد دیگرے فلمیں فلاپ ہوئیں اور بیوی سے علیحدگی بعد گھریلو زندگی بھی پریشانیوں میں دکھائی دیتی ہے ۔اس انگوٹھیے کو سرجری کے ذریعے الگ بھی کیا جا سکتا ہے ، لیکن ریتک روشن کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اس انگوٹھے کو ہٹانے کے بارے میں نہیں سوچا کیوں کہ یہ اں کے لیے خوش قسمتی کی علامت ہے ریتک کی طرح ان کے والد بھی راکیش روشن توہم پرستی میں بری طرح مبتلا ہیں ، انھیں یہ خبط ہو گیا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز انگریزی کے لفظ kمیں چھپا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر فلموں کے نام kسے شروع ہوتے ہیں مثلاکوئلہ ،کرن ارجن ،کوئی مل گیا ،اور کرش وغیرہ ۔
بولی وڈکے مسٹر عامر خان دسمبر کے مہینے کو اپنے لیے خوش قسمت مانتے ہیں انھوں نے گجنی اور تھری ایڈیٹس کو دسمبر میں ریلیز کرنے پر زور دیا تھا ، اسکے بعد ان کی چند فلمیں مثلآتلاش ، دھوم تھری ، اور پی کے بھی دسمبر میں ریلیز ہوئی تھیں ۔بپاشا باسو ہر ہفتے لیموں اور مرچین خرید کر اپنی گاڑی کے اوپر ڈالتی ہیں ان کا ماننا ہے کہ اس سے ان کے اوپر چھائے بد قسمتی کے بادل چھٹ جاتے ہیں سنجے دت علم الااعداد پر یقین رکھتے ہوئے نمبر 9کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھتے ہیں ۔
سنجے دت نے اپنی تمام گاڑیوں کے لیے موٹر وہیکل رجسٹریشن ڈپاٹمنٹ سے 4545کا عدد حاصل کر رکھا ہے سچن ٹنڈولکر اپنی صلاحیت سے زیادہ اس خوش قسمت پیڈ پر یقیں رکھتے ہیں جو ان کے بھائی نے انھیں تحفے میں دیا تھا وہ ہر میچ میں بیٹنگ سے پہلے اسے اپنے بائیں ٹانگ پر پہننا نہیں بھولتے ۔ گالف کے عالمی چمپین ٹائیگر ودڈ اتوار کے دن سرخ رنگ نہیں پہنتے ان کے خیال میں ایسا کرنے سے ان کے حق میں اچھا نہیں ہوگا ۔امریکی ڈیزائنر جونز اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنا پرس کبھی فرش پر نہیں رکھتی ، اس کی ماں نے کہا تھا کہ اگر وہ ایسا کریے گی تو دولت کی دیوی ان سے روٹھ جائے گی ،یہ ساری باتیں ان لو گوں کی ہیں جو مذہب سے کوسوں دور ہیں ،بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انھوں نے اپناالگ مذہب بنا رکھا ہے ،
لیکن ستم بالائے ستم ان سب فرسودہ با تیں پر ہمارے پاکستان میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بیماری میں مبتلا ہو چکی ہے، جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے،وجہ اس جہالت کی صرف ایک ہے اور وہ ہے دین سے دوری ،اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ایسا مکمل دین ہے جس کی گواہی خالق کائنات نے خود دی ہے، جبکہ ہما رے مذہب اسلام میں اس طرح کی توہم پرستی کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہم مسلمانو ں کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھنا چا ہیے اللہ تعالیٰ جو کر تے ہیں وہ ہمارے حق میں بہتر ہو تا ہے ،’’بے شک اللہ سب سے بہتر تد بیر کر نے والا ہے‘‘