کسی فرد یا گروہ کے بنیادی عقائد کا تعلّق اسکے کائنات اور زندگی کی تخلیقی نظرئیے سے ہوتاہے ۔ مضبوط نظریۂ حیات کی بنیاد ٹھوس عقلی اور علمی دلائل پر ہونی چاہیئے۔ جدید معاشرتی نظریات اور انکے محرّک سائنسی نظریات کا، جو کائنات کے خالق کا انکار کرتے ہیں ، طائرانہ جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ انکے فلسفے کی عقلی بنیاد کی مضبوطی کا تعیّن ہوسکے۔
جدید دور کے نظریاتِ حیات کی بنیادیں سائنس اورسائنسی دریافتوں پر استوار تو ہیں مگر یہ اساس کتنی کھوکھلی یا مضبوط ہیں اس کا اندازہ جدید ایم ۔ تھیوری M-Theory سے لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ سائنس ٹھوس حقائق پر ہی انحصار کرتی ہے لیکن یہ تھیوری سائنسی مفکرّین کے خوابی تخلیّات کی مثال ہے۔ سپر اسٹرنگ تھیوریز Super-String-Theories کو یکجا کر کے سائنسداں ایک نئی تھیوری پر کام کر رہے ہیں جسے ایم۔تھیوری کا نام دیا جارہا ہے۔ اس مشترکہ تھیوری کی بنیاد خلا کے چند حقیقی مظاہر یعنی کانٹم غیر یقینیQuantum-uncertainty ، کرَوْڈ اسپیس(Curved Space)، سپر سمِٹری Super-Symmetry، کوارک Quark، اسٹرنگ Stringاور ملٹی ڈائمنشن Multidimension پر مبنی ہے۔ ایم تھیوری فریم ورک میں ان سب کو مدغم کیا جارہا ہے ۔
یہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اسکو عام انسان نہیں سمجھ سکتا ۔
یہ کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کے تخیّل کو ایک منطقی جواز دینے کی کاوش ہے۔
سائنس کی روسے اسکو مختصراً یوں سمجھیں کہ اگر ہم500 کو500سے10دفعہ ضرَب در ضرب دیتے چلے جائیں تو اسکے حاصل کے برابر کائناتیں خود بخود بنیں اور فنا ہوئیں! یعنی لا تعداد۔
اب تخلیق کے مرحلے کی سائنسی روداد کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔
اپنی کتاب دی گرینڈ ڈیزائن کے صفحہ 226 پر اسٹیون ہاکنگ لکھتے ہیں،
” if the total energy of the universe must always remain zero, and it costs energy to create a body, how can a whole universe be created from nothing? that is why there must be a law like GRAVITY. Because gravity is attractive, gravitational energy is negative……. This negative energy can balance the positive energy needed to create matter, but its not that simple.”
"اگر کائنات کی کُل توانائی کو ہمیشہ صفر ہی رہنا ہے اور کسی جسم کی تخلیق کے لیئے توانائی ہی ضروری ہے تو کائنات کی تخلیق نیست nothing سے کیسے ہوسکتی ہے؟ اس کے لیئے ضروری ہے کہ وہاں پر کشش ثقل gravity یا کھنچاؤکا قانون ہونا چاہیئے۔، کیونکہ ثقل میں کشش اور ثقل کی توانائی منفی ہے۔۔۔۔۔ یہ منفی توانائی اس مثبت توانائی کو متوازن کرسکتی ہے جو مادّے کی تخلیق کے لیئے ضروری ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔”
یہی سائنسدان اسی کتاب کے صفحہ 227 پر رقمطراز ہیں:
Because there is a law like GRAVITY, the universe can and
will create ITSELF from NOTHING.
کیونکہ ایک قانونِ کشش ثقل موجود ہے تو کائنات نیست سے اپنے آپ کو خود تخلیق کرسکتی ہے اور کریگی۔
ذرا غور کریں کہ تخلیق سے قبل جب کچھ نہیں تھا تو نیست nothing میں کشش ثقل کاقانون کیسے موجود ہوا؟
یعنی عدم میں اگر کوئی قانون موجود تھا تو وہ ماحول عدم یا نیست nothing نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ کشش کا تو تعلّق ہی مادّے کے موجود ہونے سے ہے مادّہ ہے تو کشش ہے ورنہ کشش نہیں۔ اور اگر کشش ہے تو وہ نیست nothing نہیں۔
کیونکہ سائنس دانوں کے پاس اچانک تخلیق کا کوئی ٹھوس مواد نہیں ہے تو یہ زبردستی فرض کرلیا گیا ہے کہ کائنات کی ابتدا سے پہلے ایک قانونِ کشش ثقل موجود تھا ۔ یہ کسی نظریئے کو زبردستی ٹھونسنے یا کھینچ تان کر سائنسی بنانے کی منفرد مثال ہے جو بذاتِ خود غیر سائنسی ہے۔ اسے جدید سائنس کا تخلیق کائنات کا انتہائی غیر منطقی مفروضہ hypothesis ہی کہا جاسکتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اہم ترین بنیادی نظریہ ہی تضاد پر مبنی ہو اور ابتدا میں ہی خود اپنی نفی کر رہا ہو تو اس پر بننے والا نظریۂ حیات کیسے مستحکم ہوگا۔
اگر اسکا دوسرا استدلال یہ لایا جائے کہ بگ بینگ کے اندر قانون کشش ثقل موجود تھا لہٰذا تخلیق ہوئی، تو پھر آپ نیست کو زیر بحث ہی کیوں لارہے ہیں۔ اس جملے میں نیست یا nothing کا تذکرہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ تخلیق کائنات میں کسی بیرونی قوّت کے اثر انداز ہونے کو سائنس قبول کرنے پر مجبورہے۔
یہی سائنسداں اسی صفحے پر آگے لکھتے ہیں،
"Spontaneous creation is the reason that there is something rather than nothing, why the universe exists, why we exist. It is not necessary to invoke God to light the blue touch paper and set the universe going. ( the Grand Design, page 227)
"یہ اچانک تخلیق spontaneous creation ہی ہے کہ جسکی وجہ ہے یہاں نیست nothing کے بجائے کچھ something ہے۔کائنات کیوں موجود ہے اور ہم کیوں موجود ہیں، اسکے لیئے خدا کوبیچ میں لانے کی ضرورت نہیں کہ جس نے کوئی نیلا کاغذ سلگا کر کائنات کو چلادیا۔”
ایسا لگتا ہے کہ سائنس اللہ کو ماننے کے بہت قریب ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ غیر عقلی دلیل دیرپا نہیں ہوتیں۔
ایک قدم آگے بڑھ کر تخلیق کی سائنسی تشریح کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
اس ضمن میں ایک اہم نکتہ اور سامنے رکھیں وہ ہے قانونِ امکان۔ Law (formula) of Probability
What is PROBABILITY? definition of PROBABILITY .
Likelihood; appearance of truth. The likelihood of a proposition or hypothesis being true, from its conformity to reason or experience, or from superior evidence or arguments adduced in its favor.
Law Dictionary: http//thelawdictionary.org/probability/آقانونِ امکان کیا ہے؟
قانون یا فارمولہِ امکان کی تعریف۔
سچّائی کے ظاہر ہونے کے امکانات، تجربات اور نتائج کے تواتر کی بنیاد پرکسی نظریہ کے صحیح ہونے کے آثار
مذکورہ بالا دونوں حوالوں کا لُبِّ لباب تخلیقِ کائنات کی درج ذیل سائنسی تشریح ہے۔
تخلیقِ کائنات کی سائنسی تشریح:
کیونکہ قانونِ کشش ثقل کی وجہ سے کائنات خود بخود بن سکتی ہے لہٰذا اس عمل سے لاتعداد کائناتیں بنتی ، ٹوٹتی اور فنا ہوتی رہیں لیکن ہماری کائنات اُن لاتعداد میں ایک ہے جو فنا نہیں ہوئی۔ بے شمار کائناتوں کی تخلیق اور فنا کے دوران کسی ایک کا قائم رہ جاناامکانات میں ہے! یہ ایک اتفاق ہے اور قانون امکان Law of Probability کے تحت ممکن ہے۔ طبعئی قوانین، فطری قوّتیں اور زندگی بھی ماحولیاتی اتّفاق سے وجود میں آئے ۔ سارانظام کائنات انہی طبعئی قوانین پر چل رہا ہے۔
ایم تھیوری درحقیقت کائنات کی تخلیق اور اسکی ہیئتِ ترکیبی کو سمجھنے کاے لیئے محض ایک نظریہ Theory یا مفروضہ ہے جسے کھیچ تان کر خدا کے انکار سے نتھی کیا جارہا ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا بھی یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ کائنات خود بنی !
یہ تھیوری کسی پراسس یا تعمیری عمل کی محض علمی منظر کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور اگر یہ صحیح ثابت ہوتی بھی ہے تو اس سے ایک زبردست تخلیق کی تشریح سامنے آئیگی لیکن خدا کے بغیر عدم سے خود بخود تخلیق انتہائی متعصّب غیر عقلی نظریہ ہے جس کی کوئی عقلی اور علمی تشریح ہونا ناممکن ہے۔
مذہبی تشریح:
مندرجہ بالا تشریح کا ماحصل یہ بھی توہوا کہ اگر کوئی قوّت یعنی کشش کائنات کے وجود سے پہلے بھی موجود تھی جس کے اثر انداز ہونے سے کائنات بنی ہے تو سائنس اسکو کوئی بھی نام دے ہم اسے لامحدودقوّت والی ہستی کا اِذن کہتے ہیں۔ یہ تو اللہ کی لامحدود ہستی کا ارادہ تھا جس نے کائنات تخلیق کی اور اس کے نظام کو چلانے کے قوانین بنائے جن کو ہم آفاقی قوانین کہتے ہیں۔ کشش یا کوئی مخفی بیرونی کردار اس لیئے موجود ہوگا کہ اسکی تخلیق پہلے کی گئی ہوگی یعنی یہ ایک تخلیقی پراسس کا حصہ رہا ہوگا۔ ہماری یہ تشریح بھی اب تک کی سائنسی پیش رفت پر ہی مبنی ہے کیونکہ کل کی دریافتوں کا پتہ نہیں۔ یہی منطقی اور عقلی استدلال ہے جو سائنسی توجیہ میں مفقود ہے۔سائنس ایک طرف خدا سے لاتعلُقّی کا اظہار کرتی تو دوسری طرف مجبوری میں اشارتاً قبول بھی کرتی ہے۔ کیا عجیب بات ہے!
اب اس اہم مسئلہ کے کچھ اور پہلوؤں کو بھی دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام بظاہر عام فہم ہے اور فطرت کے تمام مظاہروغیرہ ہر انسان کے لیے سمجھنا آسان ہیں اور فطری طور پر عام انسان خدا ہی کو خالق مانتا ہے لیکن دوسری طرف سائنسی طور پر ہم اس کائنات کی ابتدا کی ایسی تشریح نہیں دیکھتے ہیں کہ عام انسان آسانی سے سمجھ لے۔ ،ہمیں علمیت کی گہرائی میں آخر جانا ہی کیو ں پڑ رہا ہے؟
مادّہ پرستوں سے سوال ہے کہ اگر کائنات اور زندگی ایک حادثہ یا اتفاق ہے تو:
کیا کائنات اپنا کوئی ذہن بھی لے کر پیدا ہوئی کہ انسان کے ساتھ آنکھ مچولی کر رہی ہے؟
کیا نیچرانسان سے زیادہ ذہین ہے؟
نیچر میں علم کے ذخائر کہاں سے وارد ہورہے ہیں؟
جن اہم سوالوں میں سائنس تشریح سے بے بس ہے وہ بھی ملاحظہ کریں۔
۱۔ خیالات کے اجراء کا منبع کیا ہے۔
۲۔ ایٹم میں قوّت کہاں سے آتی ہے۔
۳۔ کائنات میں موجود قوّتیں کہاں سے آئی ہیں۔
۴۔ انسان اور حیوان بوڑھے کیوں ہوتے ہیں۔
۵۔ انسان کی خواہش اور اس کے عمل میں کیا طبعئی تعلق ہے۔
۶۔ روشنی کے پارٹیکلز یعنی فوٹون اتنی رفتار سے کیوں اور کیسے سفر کرتے ہیں۔
انسانیت کے رہنما:
سوال یہی ہے کہ کیا انسانیت کی نظریاتی رہنُمائی ان چند لوگوں پر چھوڑی جاسکتی ہے جن کے اخلاص پر تو ہم شبہ نہیں کرتے کیونکہ وہ علمِ طبعیّات کے اصولوں کے حساب سے ہی تحقیق کر رہے ہیں لیکن غور طلب یہ بات ہے کہ ایک غیر یقینی اور غیر مصدّقہ نظریہ کس طرح انسانوں کے لیے مفید اور دائمی نظرےۂ حیات کی بنیاد بن سکتا ہے؟
جدید لامذہب فلسفے جن کی بنیاد مادیّت ہے مثلاً لبرل ازم، سیکولر ازم اور جمہوریت انسانیت کی رہنمائی کے ارفع مرتبہ پر فائزہونے کے اس لیئے اہل نہیں کیونکہ یہ انتہائی کمزور علمی بنیاد پر ایستادہ ہیں، انکے پاس انسان اور کائنات کے موجود ہونے سے متعلّق کوئی معقول عقلی نظریہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیئے جدید معاشرتی نظریات انسان کو نہ تو ٹھوس حیاتی فلسفہ دیتے ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کی کوئی مستند بنیاد بتاتے ہیں بلکہ خود انسان ہی کو بر تر قرار دے کراسے جمہوریت کے ذریعے ہر قانون اور اخلاق کی تشریح کا خوگر بناتے ہیں جو بے شمار خرابیوں کی بنیاد ہے۔
در حقیقت یہ جدید نظریات انسان کو محض علمی اور نظریاتی بحث میں الجھا کر اسکی منزل کودھندلا دیتے ہیں کیونکہ اگرانسا ن اپنے آپ کو صرف فطرتی اور طبعئی ماحول سے جوڑتا ہے تو اخلاقیات کی وہ تمام بنیادیں اپنا جواز کھو دیتی ہیں جو الہاٰمی احکامات کی روشنی میں متعیّن ہوئی
ہیں۔
اس کی بہترین مثال ان لا مذہب نظریات اور اصولوں یعنی سیکولرازم اور لبرل ازم پر معاشرہ تعمیر کرنے والے وہ مغربی ممالک ہیں جہاں پر مادّی ترقّی تو بے مثال ہے لیکن دوسری طرف اب ایسے قوانین بن چکے ہیں جس میں مرد کی مرد سے شادی قانونی قرار دے دی گئیں ہیں اور جہاں مرد اور عورت بغیر نکاح کے قانونی طور پر رہ سکتے ہیں!
اب آگے مزید کیا ہوسکتا ہے عیاں ہے !
کیا یہ خالق کے بنائے ہوئے معاشرتی اور فطری قوانین سے بغاوت نہیں؟
کیاانسان معاشرتی حیوان بنکر قابل احترام رشتوں کی تمیز ختم کردے ؟
انسان جو اپنی سانس ایک منٹ نہیں روک سکتا وہ باتیں کتنی بڑی کرتا ہے ،
سوچنے کا مقام ہے!