میاں صاحب پنجاب کی عینک اُتاریں!

میاں محمد نواز شریف کے رویے سے یوں لگتا ہے جیسے وہ صرف اپنے صوبے یعنی پنجاب کے وزیراعظم ہوں حالانکہ آئین کے تحت وہ سارے وفاق کے بل شرکت غیرے وزیراعظم یعنی چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ان کا یہ عہدہ آئینی طور پر تقاضہ کرتا ہے کہ وہ وفاق کی تمام اکائیوں کو برابر توجہ دیں تاہم میاں صاحب کے رویے سے یوں لگتا ہے جییے ہم نے انہیں صرف پنجاب کے لئے چنا ہے اور ان کے اس رویے کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف اگر نفرت نہیں توتعصب ضرور بڑھ رہی ہے اور خصوصا خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن آئندہ وقتوں میں مشکل صورتحال سے دوچار ہوسکتی ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری سے لے کر حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان میں ہوئے خودکش حملے تک وزیراعظم میا ں نواز شریف کے تمام فیصلوں سے پنجابی تعصب کی بوآتی ہے جسے خیبرپختونخوا کے عوام اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

ضمنی انتخابات کے نتائج اور مسلم لیگ ن کی فتح سے شاید وزیراعظم سمجھ رہے ہوں کہ سب اچھا ہے تاہم اگر وہ گہرائی میں جا کر سوچیں (جس کی اُن کو عادت نہیں ) تو ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ دیگر صوبوں میں مسلم لیگ ن کی پالیسیوں پر تنقید بڑھ رہی ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری جیسے عظیم اور وفاق پاکستان کو مزید مستحکم کرنے والے منصوبے کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں احسن اقبال نے جس طرح متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئیں ہیں اور اسی وجہ سے چھوٹے صوبوں خصوصا خیبرپختونخوا اور سندھ کی جانب سے پنجاب کی ناانصافی کا رونا ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے ۔اگر وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کا بس چلتا تو سی پیک کو پنجاب کے ایک سرے سے شروع کرکے دوسرے سرے پر ختم کر دیتے تاہم بلوچستان اور گلگت بلتستان کی خوش قسمتی کہ ایسا ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ گوادر اور گلگت میں اصل ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ہے ۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تما م اجلاسوں اور چین کے تمام دوروں میں شہباز شریف کو بطور وزیراعلی پنجاب جو خصوصی اہمیت دی گئی وہ کسی اور صوبے کے وزیراعلی کے حصے میں نہیں آئی ۔وہ سی پیک کے حوالے سے تقریبا چین کے تمام دوروں اور میٹنگز میں موجود رہے اسی طرح وزیراعلی بلوچستان بھی ایک آدھ اجلاس میں شریک ہوئے تاہم خیبرپختونخوا کے وزیراعلی کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اب تک جاری ہے۔

گزشتہ دنوں میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے دو بڑے حملے ایک ہی دن ہوئے۔علی الصبح دہشت گردوں نے پشاور میں ورسک ڈیم کی کرسچین کالونی پر ہلہ بولا جس کا مقصد اقلیتی برادری کو نشانہ بناکر پاکستان کو اقوام عالم میں بدنام اور شرمندہ کرناتھا ۔خوش قسمتی اور سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے دہشت گر د اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور چاروں حملہ آوروں کو جہنم واصل کر دیاگیا ۔

اسی طرح دوسرا حملہ خیبرپختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان میں کچہری پر کیا گیا جس میں پولیس اہلکاروں اور وکلاء سمیت 14شہری شہید ہوئے ۔یہاں بھی پولیس کانسٹیبل کی جواں مردی اور بہادری کی وجہ سے دہشت گردوں کو جزوی ناکامی ہوئی ۔جزوی اس طرح کہ خودکش حملہ آور کا ہدف ضلعی کچہری کا بار روم تھا جس میں جنرل باڈی کا اجلاس جاری تھا اور اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا تو ہمیں ایک اور سانحے کا سامنا ہوتا ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اُس دن اپنی دیگر تمام مصروفیات ترک کرکے وفاق کی علامت بن کرمتاثرہ علاقے کا دورہ کرتے ،شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ملتے ،زخمیوں کی عیادت کرتے ،بہادری کا مظاہر ہ کرنے والے اور شہادت کا رتبہ پانے والے پولیس کانسٹیبل کے والدین کوپرسہ دیتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے تاہم بجائے اس کے انہوں نے پنجاب کے علاقے کالا شاہ کاکو میں ایک سڑک کا سنگ بنیاد رکھنے کو ترجیح دی ۔

افتتاحی تقریب میں وہ انتہائی ہشاش بشاش نظر آئے اورکالاشاہ کاکوبائی پاس کے سنگ بنیاد کے بعد عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں انہوں نے خبیر پختونخوا میں ہوئے دونوں دہشت گرد حملوں کا ذکر انہوں نے اچھے خاصے مسکراتے انداز کیا۔میرا بس نہیں چل رہا کہ میں ان کی وہ مسکراتی ہوئی فوٹیج یہاں چسپاں کر دوں ۔انہوں نے فرمایا ،دہشت گرد کمزور ہوگئے ہیں اور اب وہ معمولی معمولی حملے کر رہے ہیں۔ یعنی اچھے خاصے سیکیورٹی زون میں واقع پشاور کی کرسیچین کالونی اور مردان میں کچہری گیٹ پر خودکش حملہ جس میں مجموعی طور 15افراد زندگیاں ہار گئے ۔ان کی نظر میں معمولی حملے تھے ؟؟؟

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو بھی بحالت مجبوری دورہ مردان پر بھیجا گیا اور ان کو بھی فرصت کہیں دوسرے دن جا کر ملی ۔میں نے بحالت مجبوری اس لئے لکھا ہے کہ جنرل راحیل شریف اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے درمیان ہیلی پیڈ پر دس بارہ منٹ تک ملاقات رہی۔مجھے نہیں معلوم کہ اس دوران انہوں نے کیا تبادلہ خیال کیا تاہم وزیراعظم میاں نواز شریف فوج اور تحریک انصاف کے روابط کے بارے میں کافی شکوک و شبہات رکھتے ہیں اوراس حوالے سے فکرمند بھی ہیں اس لئے میرے خیال میں وزیرداخلہ کے دورہ مردان کی بھی یہی وجہ بنی اگر آرمی چیف اور چیئرمین تحریک انصاف کی ملاقات نہ ہوتی تو شائد وزیرداخلہ صاحب مردان کے باسیوں کو اپنے درشن کراتے ۔

اگر وزیراعظم میا ں نواز شریف چاہتے ہیں کہ سی پیک جیسا عظیم منصوبہ (جسے ابھی سے خطے کے لئے گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے )متنازعہ نہ بنے تو اُن کو اپنی آنکھوں سے پنجابیت کی عینک اُتارنی ہوگی اور خیبر پختونخوا سمیت ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں کو ان کا جائز حق دینا ہوگابصورت دیگر امریکہ اور بھارت سمیت ہمارے تمام دشمن خیبرپختونخوا میں بھی تعصب کی آگ بھڑکانے کی صلاحیت اور استعداد کار رکھتے ہیں جس طرح بلوچ علیحدگی پسندوں کے زریعے انہوں نے بلوچستان میں آگ لگا رکھی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے