پی آئی سی حملہ کیس: وکلاء ڈاکٹرز تنازع کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پر حملے سے متعلق کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان تنازع کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی۔

لاہور میں دل کے اسپتال پر حملے کے الزام میں گرفتار وکلاء کی رہائی اور مقدمات خارج کرنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔

آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، ہوم سیکریٹری پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔

آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ہم قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں اور تفتیش کے پیرا میٹرز کو پورا کر رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے آئی جی سے استفسار کیا کہ وکلاء کو چہروں پر نقاب چڑھا کر کیوں پیش کیا گیا، کیا کوئی شناخت پریڈ کروانی ہے؟ جو لوگ یہاں کھڑے ہیں وہ اس ریلی میں موجود ہی نہیں تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت میں ہمارے سامنے کھڑے وکلاء وہاں جا کر معافی مانگ کر آئے، معافی مانگنے والے وکلاء کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ چہروں پر نقاب چڑھا کر پیش کرنا نہیں بنتا، سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے تو پھر نقاب کی کیا ضرورت ہے؟

آئی جی نے جواب دیا کہ جن لوگوں کے چہروں پر نقاب چڑھائے وہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نہیں ہیں، جس پر جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیئے کہ پھانسی دیتے ہوئے یہ کام کرتے ہیں، جو آدمی موقع سے پکڑا گیا اس کی شناخت پریڈ کی کیا ضرورت ہے؟

جسٹس مظاہر علی اکبر نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ کو اس واقعہ کا پس منظر پتہ ہے؟ جس پر آئی جی پولیس نے کہا ہمیں تو ایک حادثے کا پتہ ہے جس میں پیرا میڈیکس کا تنازع ہوا، ہم نے چائنہ چوک میں روکنے کی کوشش کی، وکلاء نے کہا کہ ہم پُر امن طریقے سے جا رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ جہاں ہارن بجانا منع ہے آپ نے وہاں احتجاج کی اجازت دے دی؟

عدالت نے ہوم سیکریٹری پنجاب مومن آغا سے پوچھا کہ آپ بتائیں اس سانحے میں کتنے لوگ جاں بحق ہوئے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ 3 افراد جاں بحق ہوئے۔

جسٹس مظاہر نے دوبارہ پوچھا کہ آپ نے جاں بحق ہونے والوں کو کتنا معاوضہ دیا؟ جس پر ہوم سیکریٹری نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو 10، 10 لاکھ روپے دیئے۔

عدالت نے ہوم سیکریٹری سے کہا کہ یہاں پولیس والوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے اس پر آپ نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے آئی جی پنجاب سے کہا کہ کالا کوٹ کوئی گالی نہیں ہے، اس شخص کے بارے میں بات کریں جس نے اس کی توہین کی ہے، سب کو ایک رسی سے نہ باندھیں، جو لوگ ملوث ہیں ان کے ساتھ ہم نہیں ہیں، ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں لیکن جو وکلاء اس میں ملوث نہیں ان کو تنگ نہ کریں۔

آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ میرے والد خود قانون دان تھے اور میں خود پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں، جس پر جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو آپ پر ڈبل ذمہ داری عائد ہو گی۔ جسٹسں مظاہر علی اکبر نقوی کے ان ریمارکس پر کمرہ عدالت قہقہہ لگ گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ہم پی آئی سی کے سربراہ اور ڈاکٹرز سے بات کر لیتے ہیں۔

بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وکلاء ڈاکٹرزتنازع کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی جس میں چار وکلاء رہنما اور ڈاکٹرز کے 4 نمائندگان شامل ہوں گے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل لاہور میں دل کے اسپتال پر وکلاء نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی اور اس ہنگامہ آرائی کے دوران 3 مریض بھی انتقال کر گئے تھے۔

پولیس نے وکلاء کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 250 افراد کو نامزد کیا تھا جب کہ 57 وکلاء کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

وکلاء تنظیموں کی جانب سے پولیس کے ان اقدامات کے خلاف ملک بھر میں گزشتہ 7 روز سے ہڑتال کی جا رہی ہے اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے