اپنی بند مٹھی کھولیں!

قصور کے قریب ایک گائوں میں ایک عالی شان عمارت کے لان میں سینیٹر طارق چوہدری‘ میاں خالد اور مشتاق بھائی کے ساتھ بیٹھے ہوئے خیال آیا کہ پاکستان میں بہت سے لوگ نیک کام کرتے رہتے ہیں مگر مجال ہے ان کے کارناموں کا کسی کو پتہ ہو۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تصور پایا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی کی مدد ایک ہاتھ سے کریں تو دوسرے کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جب مدد کریں تو جس کی مدد کی جارہی ہو وہ شرمندہ نہ ہو‘ لہٰذا بہتر ہے چھپ کر ہی مدد کی جائے۔ دوسرا‘ کچھ لوگ اس حوالے سے اسلامی حوالے بھی دیتے ہیں کہ مدد کرو تو چھپ کر کرو۔

2014ء میں امریکہ میں ڈاکٹر عاصم صہبائی کے پاس چھ ماہ ٹھہرا تھا تو ان دنوں ان کے پاس قرآن پاک کی ایک کاپی تھی‘ شاندار انگریزی ترجمہ تھا۔ برسوں پہلے مودودی صاحب کا ترجمہ اور تفسیر پڑھی تھی‘ سوچا پھر سے پڑھا جائے۔ یہ نیا ترجمہ بھارت سے چھپا تھا اور یقین کریں بہت ہی شاندار۔ مزہ آگیا پڑھ کر ۔ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ کر بہت سی غلط فہمیا ں دور ہوگئیں۔ مثلاً پہلی بات یہ کہ قرآن کہتا ہے چیرٹی کرو‘ غریبوں کی مددکرو اور یہ سمجھو کہ تم یہ مجھے اُدھار دے رہے ہو۔ ایک بات جس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ یہ تھی کہ خدا کہتا ہے تم لوگ چھپ کر چیرٹی کرو یا لوگوں کو دکھا کر‘ خدا کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔یہ آپ پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ کیسے مد دکرنی ہے‘ شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ نیکی کے کام بتایا کرو اور برائی کو چھپایا کرو۔ اسی طرح میں سمجھتا تھا شاید یہ حدیث ہے کہ کسی کے گھر جائو تو تین دفعہ دروازے پر دستک دو اور جواب نہ ملے تو لوٹ جائو اور ناراض بھی نہ ہو۔ مجھے پتہ چلا یہ خدا کا حکم ہے اور قرآن میں ہے۔ اس سے زیادہ پرائیویسی کا تصور کہاں مل سکتا ہے۔ بہرکیف اب میں اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ تم لوگ جب چیرٹی کرتے ہو تو بتایا کرو تاکہ دوسروں کو بھی حوصلہ ہو کہ ہم بھی اچھے کا م اور غریبوں کی مدد کریں‘ ہاں دوسروں کے عیب چھپایا کرو۔

جب اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب اپنی اس غیرمعمولی یونیورسٹی کے بارے میں شرکا کو بریف کررہے تھے تو میں یہی سوچ رہا تھا کہ اس خاندان یا ان تین بھائیوں نے کمزور‘ غریب اور پس ماندہ بچوں کے لیے کیسے اپنی جیبوں کو کھول دیاہے۔ یہ تین بھائی‘ سینیٹر طارق چوہدری‘ میاں خالد اور مشتاق بھائی آپ کو اکٹھے ملیں گے‘ اکٹھے ٹریول کریں گے۔ مشتاق بھائی کا دل بہت بڑا ہے۔ ایک دن میں نے کہا: مشتاق بھائی مجھ سے اگر کسی انسان کی کامیاب زندگی کی تعریف پوچھی جائے تو پتہ ہے میرے ذہن میں کس کا خیال آتا ہے ؟ آپ کا ۔ اگر آپ کی زندگی میں آپ کے بچے سیٹل ہوگئے ہیں ‘ وہ ماں باپ کے فرمانبردار ہیں‘ وہ اچھے انسان ہیں‘ بہترین نوکریاں کررہے ہیں اور آپ اپنے نواسوں اور پوتوں سے شام کو کھیلتے ہیں تو یقین کریں اس سے خوبصورت لائف نہیں ہوسکتی۔ میں نے کہا: مشتاق بھائی آپ کے خاندان نے زندگی بھر جو لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں‘ اس کا صلہ خدا نے آپ کو بیٹوں کی شکل میں دیا ہے جو امریکہ میں رہتے ہیں اور محنت سے اپنا وہاں ایک بڑا کاروبار چلاتے ہیں۔

ان اربوں روپوں کی دولت کا کیا فائدہ اگر آپ کے بچے بھٹک جائیں اور آپ اسی پریشانی میں دنیا سے رخصت ہوں۔ لائق بیٹے کے لیے بچانے کی ضرورت نہیں کہ وہ خود کما لے گا‘ نالائق کے لیے بچت نہ کریں کہ اس نے سب کچھ ضائع کر دینا ہے۔ امجد ثاقب بتا رہے تھے کہ انہوں نے پاکستان کے غریب علاقوں کے بچوں کے لیے یونیورسٹی شروع کی تو یہ منصوبہ بنا کہ اس کی اینٹیں برائے فروخت پیش کی جائیں گی۔ مطلب یہ تھا کہ جو مدد کرنا چاہتے ہیں وہ اس عمارت کی اینٹیں خریدیں گے جو اس یونیورسٹی کو تعمیر میں کام آئیں گی۔ امجد ثاقب بتانے لگے کہ وہ گنتی بھول گئے ہیں‘ مشتاق بھائی نے جتنی اینٹیں خریدی ہیں اور جتنی امداد کی ہے۔ اسی طرح خالد بھائی ہیں ۔ ان امریکن پاکستانیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے وہاں چندے اکٹھے کر کے امجد ثاقب کے اس منصوبے میں مدد کی۔ مجھے یاد آیا ‘ایک دن ہم پرانے دوست ارشد شریف‘ خاور گھمن‘ ضمیر حیدر‘ عدیل راجہ اورعلی رات گئے اکٹھے تھے اور پنجاب حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ‘اخوت‘ پر کچھ سوالات اٹھائے تو میں نے کہا: ہماری بدقسمتی ہے‘ نہ ہم اچھے کام خود کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ امجد ثاقب نے سب کچھ چھوڑا اور اتنے بڑے بڑے منصوبے بنا کر لوگوں سے ایک ایک پائی اکٹھی کر کے کتنے لوگوں کی مدد کی ہے۔ وہ بتانے لگے: ایک وزیر صاحب ناراض ہیں‘ میں نے کہا: اس پی ٹی آئی کے وزیر کو سمجھائیں کہ گند نہ گھولیں۔ وہ صاحب خود بتانے لگے: اخوت کا ریکوری ریٹ ننانونے فیصد ہے۔ میں نے کہا : حکومتوں کو تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ امجد ثاقب جیسے بے لوث لوگ موجود ہیں جو دیہاتوں میں غریبوں کو پائوں پر کھڑا کررہے ہیں اور قرضے کا ریکوری ریٹ ننانوے فیصد ہے۔ خیر‘ اچھا ہوا‘ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے پانچ ارب روپے کا منصوبہ امجد ثاقب کے ساتھ سائن کیا ہے۔

مجھے خود یاد آیا کہ میرے جاننے والے خاندان کے ایک پاکستانی بچے کو امریکہ کی بڑی یونیورسٹی میں میڈیکل میں داخلہ ملا۔ بہت قابل بچہ ہے۔ اچانک اس خاندان کے حالات بگڑ گئے‘ فیس کا مسئلہ ہوگیا ۔ مجھے سمجھ نہ آئے کہ خاندان کی کیسے مدد کروں۔ ذہن میں جو تین لوگ آئے ان میں ورجینیا میں اکبر چوہدری‘ اٹلانٹا میں اعجاز بھائی‘ ڈاکٹر احتشام قریشی‘ زبیر بھائی‘ نیویارک میں عارف سونی اور مشتاق بھائی اور خالد بھائی تھے‘ جن سے میں ذاتی درخواست کرسکتا تھا۔ اکبر بھائی کا بہت شکریہ‘ ان کی بدولت ان کے چند دوستوں نے مدد کی اور ایک بہت ذہین طالب علم کا مستقبل بچ گیا۔ اکبر بھائی کے اوکاڑہ کے دوست ارشد چوہدری اور امریکہ کے شاہد جمیل کا بھی شکریہ جنہوں نے ایک ذہین طالبعلم کا مستقبل بچایا ۔

مجھے علم ہے یہ سب اچھے لوگ کبھی نہیں چاہیں گے ان کے نام بتائوں‘ لیکن جب سے قرآن پاک میں یہ پڑھا ہے کہ نیک کام بتایا کرو تو مجھے اچھا لگتا ہے لوگ کسی کی مدد کرتے ہیں تو معاشرے کو علم ہونا چاہیے۔ لاہور میں ایک خاتون ہیں جن کا نام شاہدہ نعمانی ہے‘ وہ ایک تنظیم چلاتی ہیں۔ ان کا تعارف دو تین دفعہ صحافی دوست سعدیہ کیانی نے باتوں باتوں میں کرایا تھا۔ میں نے پہلے تو سنجیدگی سے بات نہیں سنی ‘ لیکن دھیرے دھیرے جب میں نے ان کی فیس بک پوسٹ اور ٹویٹر کو فالو کرنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ جو کام وہ کررہی ہیں وہ بہترین ہے۔ وہ ہر ضرورت مند کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں یقین رکھتی ہیں۔ وہ ہر ضرورت مند کو چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرادیتی ہیں ۔ کچھ گھرانوں کی کفالت کے نام پر مدد کراتی ہیں۔ اس خاتون کی ہمت کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ شاہدہ نعمانی بھی ان سب کرداروں میں سے ہیں جو اس دنیا میں آسانیاں بانٹنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے تو ہم سب کرتے ہیں‘ اصل بات تو یہ ہے ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اجنبی لوگوں کا درد محسوس کریں اور اپنی زندگی کے کچھ لمحات نکال کر ان کی مدد پر تل جائیں۔ خدا قرآن میں فرماتا ہے ‘ جو غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھتے ہیں اور چیرٹی کرتے ہیں یقین رکھیں میں ہی انہیں صلہ دوں گا‘ ایسے سمجھ لیں وہ مجھے قرض دے رہے ہیں(مفہوم)۔

ایک دفعہ گوتم بدھ جنگل میں بیٹھا تھا۔ خزاں کا موسم تھا ہر طرف جنگل میں زرد پتے گر رہے تھے۔ اچانک گوتم نے برگد کے بوڑھے درخت کے نیچے بیٹھے بیٹھے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ہتھیلی میں پتوں کو بھر کر اپنے چیلے آنند سے پوچھا۔ آنند میری مٹھی میں جنگل کے سارے پتے سما گئے ہیں؟ آنندجھجک کر بولا: گرو اتنا بڑا جنگل اور اتنے پتے بھلا کیسے ایک مٹھی میں سما سکتے ہیں؟ گوتم بولا بالکل درست۔ یہی بات دنیا کی سچائیوں کی ہے۔ دنیا میں سچائیاں جنگل کے ان پتوں کی طرح بے تحاشا ہیں ‘لیکن میری مٹھی میں جتنی آئیں میں نے ان کا پرچار کیا ۔اس لیے اپنے اپنے حصے کی نیکیاں کرتے رہیں۔ اپنی بند مٹھی کھولیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے