پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو تین ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ اس عرصے کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔
بدھ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدعنوانی کے ذریعے کمائی گئی رقم کو رضامندی کے ذریعے واپس کرنے یعنی پلی بارگین سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ نیب قوانین میں ترمیم سے متعلق ایک بل ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے۔
بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کے بقول حکومت اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور اٹارنی جنرل کے بقول حکومت نیب کے معاملے پر پارلیمنٹ سے قانون سازی کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال 27 دسمبر کو وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ (نیب قوانین میں ترمیم کے) نئے آرڈیننس کے ذریعے ’بزنس کمیونٹی کو نیب سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔‘
مذکورہ ترمیمی آرڈنینس میں کہا گیا تھا کہ نیب نے ایک متوازی عملداری اختیار کر لی ہے اور یہ ٹیکس سے متعلقہ معاملات کی انکوائری کر رہا ہے جو کہ ٹیکس کے نگران اداروں کے دائرہ کار میں مداخلت جیسا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں نیب کے عملی دائرہ کار کی وضاحت ان ترامیم کے ذریعے کرنی ضروری ہے۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نیب کے حکام کو پلی بارگین سے روک چکی ہے اور جب تک پارلیمنٹ اس ضمن میں قانون سازی نہیں کرتی، اس وقت تک نیب کے حکام اس اختیار کو استعمال نہیں کرسکیں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر عدالت نے نیب کے قانون کی کسی ایک شق کو بھی آئین سے متصادم قرار دے دیا تو نیب کا پورا قانون ختم ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے 30 دسمبر کو اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’(نیب ترمیمی) آرڈیننس کو پارلیمان کے پاس ہی جانا ہے، اگر اپوزیشن کی کسی جماعت کے پاس کوئی بہتر تجویز ہے تو سامنے لائے۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت نیب کے قانون میں ترمیم کے معاملے کو زیادہ طول نہ دے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومت عدالت کی طرف سے دی گئی مہلت کے دوران قانون سازی کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر عدالت قانون اور میرٹ کو دیکھتے ہوئے کیس کا فیصلہ کرے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ محمکہ کسٹمز میں کسی بھی مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ میں ہوجاتا ہے جبکہ اس کے برعکس نیب میں مقدمات دس دس سال سے پڑے رہتے ہیں لیکن ان پر فیصلہ نہیں ہو پاتا۔
بینچ کے سربراہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا حکومت چاہتی ہے کہ ’نیب کے قانون کو فارغ کر دیں‘ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
عدالت نے سماعت کے دوران سوال اٹھایا کہ کیا پلی بارگین سے متعلق نیب کے قانون کی شق 25 اے کے معاملے پر ترمیم ہو گئی ہے اور کیا اب یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے؟
سماعت کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ نیب کا مذکورہ آرڈیننس ختم ہوگیا ہے یا اس میں ترمیم کی گئی ہے جس پر عدالتی نوٹس پر عدالت میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں ان کا نیب آرڈیننس سے متعلق پرائیویٹ ممبر بل موجود ہے اور قائمہ کمیٹی کی منظوری کے بعد اس بل کو ایوان میں پیش کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ بل کے مطابق نیب کے آرڈیننس 25 اے کو مکمل طور پر ختم کیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 اے سے اب بھی کوئی مستفید ہو رہا ہے جس پر ایک اور درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم امتناعی کے باعث سیکشن 25 اے غیر فعال ہے۔
درخواست گزار اسد کھرل کا کہنا تھا کہ حکومت نیا نیب آرڈیننس لے آئی ہے جس پر بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نیب کے بہت سے قوانین ہیں لیکن ان کا مقدمہ نیب کی شق 25 اے سے متعلق ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ سنہ 2016 سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ابھی تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کو نمٹانا چاہتی ہے تاہم اگر وہ کسی نقطے پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 اے کو آئین سے متصادم ثابت کریں۔
اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ رضاکارانہ طور پر رقم کی واپسی کرنے والا شخص اپنا جرم بھی تسلیم کرے اور رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے والے شخص کو سزا یافتہ تصور کیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب کا قانون ہے کہ پہلے انکوائری ہوگی پھر تحقیقات اور پھر ریفرنس دائر ہوگا اور اس میں 20 گواہ بنیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس طرح تو ملزم کے خلاف مقدمہ زندگی بھر ختم نہیں ہوگا۔