آخری پیغام

صبح صبح میرے فون پر ایک نامعلوم نمبر سے کال آ رہی تھی۔ میں اس کال کو نظر انداز کرکے اخبار پڑھنے میں مگن رہا، پھر اچانک فون کی اسکرین پر ایک میسج رونما ہوا۔ ’’میں ظفر نائیک ہوں‘‘ یہ میرے لئے بریکنگ نیوز تھی کیونکہ خواجہ ظفر نائیک کئی دنوں سے رابطے میں نہیں تھے اور اُن کے پرانے نمبر خاموش تھے۔

میں نے فوراً کال بیک کی تو خواجہ صاحب نے پہلی ہی گھنٹی پر فون اُٹھا کر کہا تم بند کرو میں کال کروں گا، تمہیں قطر کے نمبر پر کال مہنگی پڑے گی۔

میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا خواجہ صاحب کیسی باتیں کر رہے ہیں، پہلے یہ بتایئے کہ آپ کے پرانے نمبر خاموش کیوں ہیں؟ خواجہ صاحب نے بہت کمزور اور بیمار آواز میں کہا کہ تین چار مہینے بہت تکلیف اور پریشانی میں گزرے، وہ تم نے ایک کالم میں جس یتیم خانے کا ذکر کیا تھا وہ سرینگر میں مسلسل کرفیو اور پابندیوں کے باعث بند ہو گیا۔

بہت کوشش کی کہ یہ چھوٹا سا آشیانہ کچھ معصوم یتیموں کے سر پر سایہ بنا رہے لیکن اس یتیم خانے کو چلانے والا نگران گرفتار ہو گیا کیونکہ وہ کرفیو میں بچوں کیلئے پھل، سبزیاں ڈھونڈ رہا تھا پھر پولیس ان بچوں کو بھی اُٹھا کر لے گئی۔ جب مجھے پتا چلا تو میں بیمار پڑ گیا۔

خواجہ صاحب نے درد ناک لہجے میں کہا میرے پندرہ بچے لاپتا ہیں، اپنے شہر سے ہزاروں میل دور پریشان بیٹھا تھا، اس پریشانی میں اپنے فون سے سرینگر میں کچھ جان پہچان والے سرکاری لوگوں سے مدد مانگی تو میرے رشتہ داروں کے گھروں پر چھاپے شروع ہو گئے لہٰذا میں دبئی سے دوحا آ گیا، نمبر بدل گئے، پھر مزید بیمار پڑ گیا۔

اس دوران تم سے ایک دفعہ رابطہ ہوا لیکن وہ نمبر اب میرے بیٹے کے پاس ہے، نیا نمبر تمہیں نہیں بھیج سکا۔ خواجہ صاحب بڑی مشکل سے الفاظ ادا کر رہے تھے۔ کہنے لگے طبیعت سخت خراب ہے۔ بیٹا اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ پاکستانی اخبارات کے آن لائن ایڈیشن مجھے پڑھا دیتا ہے۔

کچھ دیر پہلے میں نے تمہارا کالم ’’بغاوت کے تمغے‘‘ پڑھا تو دل میں درد کی ٹیسیں اُٹھنے لگیں، بہت تکلیف ہوئی کہ بارش اور سردی میں پُرامن مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں پر بغاوت کا مقدمہ بنا کر گرفتار کر لیا گیا۔ میں نےخواجہ صاحب سے کہا آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں تو خواجہ صاحب نے کچھ تلخ لہجے میں کہا، یار ہم کشمیریوں کا ایک پرابلم ہے۔

ہمیں بسترِ مرگ پر بھی اپنی نہیں پاکستان کی فکر رہتی ہے۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ایک بات بتائو؟ میں نے جواب میں کہا’’پوچھئے‘‘۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کہ جب کشمیر اپنی غلامی کی زنجیر توڑ کر پاکستان کا حصہ بن جائے گا تو کیا ہمیں لاپتا افراد کیلئے آواز اُٹھانے اور ظلم کے خلاف احتجاج کی اجازت ملے گی یا نہیں؟ میرے پاس جواب نہیں تھا۔

میں نے پوچھا کیا مطلب؟ خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا کی ظالم ترین فوج کا ظلم برداشت کر رہے ہیں ہمیں ناانصافی کے خلاف احتجاج کی عادت پڑ چکی ہے اگر ہم پاکستان میں شامل ہو گئے اور کسی دن تم پر بغاوت کا مقدمہ بن گیا تو کم از کم کشمیری تو احتجاج ضرور کریں گے تو کیا اُن کو بھی بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا جائے گا؟

میں نے کہا خواجہ صاحب اپنے باغیانہ خیالات کی پرواز کو قابو میں لائیں، پاکستان اور بھارت میں بہت فرق ہے۔ یہاں پر کچھ طاقتور لوگ اختلافِ رائے برداشت نہیں کرتے لیکن ہم نے جو کہنا ہوتا ہے وہ کہہ ڈالتے ہیں۔

خواجہ صاحب نے پوچھا کہ جن نوجوانوں کو بغاوت کے الزام میں اسلام آباد پریس کلب کے باہر سے گرفتار کیا گیا، اُن کی درخواست ضمانت پر عدالت کب سماعت کرے گی؟ میں نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج ہی سماعت ہونے والی ہے۔ اُنہوں نے پوچھا کیا ان بچوں کی ضمانت ہو جائے گی؟ میں خاموش رہا۔ خواجہ صاحب نے سوال دہرایا۔

بچوں کی ضمانت ہو گی یا نہیں؟ میں نے جواب میں کہا خواجہ صاحب میں نے پاکستان کی عدالتوں میں بہت دھکے کھائے ہیں اور دھوکے بھی، کچھ کہہ نہیں سکتا۔ خواجہ صاحب تڑپ کر بولے تو پھر تم نے اپنے کالم کے آخر میں یہ کیوں لکھا ہے کہ بغاوت کے جھوٹے مقدمے بنانے کا سلسلہ عدلیہ کو بند کرنا ہے۔

پارلیمنٹ یہ کام نہیں کر سکتی۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ باقی اداروں کی نسبت آئین کو زیادہ سمجھتی ہے، جھوٹ کی تباہ کاریوں سے بھی آگاہ ہے، اس لئے میں نے لکھا کہ یہ کام عدلیہ کو کرنا ہے۔

خواجہ صاحب نے کچھ بلند آواز میں کہا تو پھر سُن لو، آج ان بچوں کو انصاف ضرور ملے گا، میرا دل کہتا ہے کہ یہ ظلم ختم ہونے والا ہے، براہِ کرم عدالت جو فیصلہ کرے تم مجھے ضرور بتا دینا۔ میں نے وعدہ کیا کہ آپ کو عدالت کی کارروائی کے بارے میں ضرور بتائوں گا۔

خواجہ صاحب نے کہا کہ اب مجھے دوا کھانی ہے، میرے پندرہ لاپتا یتیم بچوں کی بازیابی کیلئے دعا کرنا۔ اُنہوں نے فون بند کیا تو میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ پونے نو بج رہے تھے۔ میں فوراً تیار ہوا اور اسلام آباد ہائیکورٹ روانہ ہو گیا۔ دس بجے وہاں پہنچ گیا۔

عدالت 22گرفتار نوجوانوں کے لواحقین اور وکلا سے بھری ہوئی تھی۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا آئی جی صاحب کہاں ہیں؟ بتایا گیا کہ آئی جی صاحب چھٹی پر ہیں۔

اُنہوں نے پوچھا ڈی سی کہاں ہے؟ ڈی سی صاحب آگے آ گئے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے پُرامن مظاہرہ کرنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں پر بغاوت کا مقدمہ کیسے بنا دیا؟ ڈی سی نے کہا سر میں اُس دن چھٹی پر تھا، ہم نے مقدمے میں سے بغاوت کی دفعہ نکال دی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا اُن پڑھے لکھے نوجوانوں پر دہشت گردی کی دفعہ کس نے لگوائی؟ جواب میں خاموشی تھی۔ جج صاحب نے کہا جن لوگوں نے ہزاروں پاکستانی قتل کیے اُن سے تو آپ بات چیت کرتے ہیں اور بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کر کے واپس آنے والوں کو آپ زبردستی دہشت گرد بنا رہے ہیں۔ اس قسم کے مقدمے سے تو پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ پولیس اور انتظامیہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

نجانے کس بےوقوف نے عمار رشید اور نوفل سلیمی پر یہ مقدمہ درج کرایا تھا۔ عدالت نے ان نوجوانوں کو شخصی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تو اکثر مرد و خواتین کی آنکھیں چھلک گئیں۔

میں نے مشرف زیدی سے پوچھا آپ کیوں رونے لگے۔ اُنہوں نے کہا پانچ دن تک بےگناہوں کو جیل میں رکھا گیا، روئوں نہ تو کیا کروں؟ مجھے خواجہ ظفر نائیک کے الفاظ یاد آنے لگے جو کچھ دیر پہلے کہہ رہے تھے آج ان بچوں کو انصاف ضرور ملے گا۔

میں نے اُن کا نمبر ملانا شروع کیا لیکن جواب نہیں آ رہا تھا۔ پھر میں اُنہیں بھول گیا۔ کافی گھنٹوں بعد پھر کال کی۔ جواب نہیں آیا۔ اگلے دن اُن کے نمبر سے کال آئی۔ اُنکے بیٹے نے بتایا کل خواجہ ظفر نائیک کی طبیعت بگڑی۔ اُنہیں اسپتال لے جایا گیالیکن وہ انتقال کر گئے۔

پاکستان کیلئے اچھا سوچنے اور پاکستانیوں کا درد محسوس کرنے والا انسان اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اُن کا آخری پیغام یہی تھا کہ پاکستان کے نوجوانوں سے وہ سلوک مت کرو جس سے پاکستان کا نام بدنام ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے