فنِ پہلوانی کا الف لیلوی کردار!

جن لوگوں نے اُنہیں دیکھا ہے اُنہیں اندازہ ہو سکتا ہے ایک بھاری بھرکم پہلوان کے ساتھ پری پیکر سی نازک ترکیب کا جوڑ‘ قوت اور فن کا کیا حسین مرقع تھا۔ ہماری پہلوانی کی تاریخ میں ایک سے زیادہ پری پیکر (یعنی پری جیسے جسم والے) پہلوان گزرے ہیں مثلاً پری پیکر سیالکوٹی، پری پیکر گوجرانوالیہ وغیرہ لیکن لاہور کا یہ کشمیری پری پیکر اپنی خصوصیات کے لحاظ سے کچھ ایسا منفرد تھا کہ اُس کے میدان میں آنے کے بعد دوسرے پری پیکر دھندلا گئے اور یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ خطاب ایجاد ہی لالہ راج پہلوان کے لئے ہوا تھا۔ لالہ راج کے کارناموں کا اگر ایک ایک کر کے جائزہ لیا جائے تو ایک طویل الف لیلوی داستان مرتب ہو سکتی ہے لیکن وہ کارنامے جو لالہ راج بدقسمتی سے انجام نہیں دے سکے اگر عمل میں آ جاتے تو شاید فنِ پہلوانی کی تاریخ میں ایسے تابناک باب کا اضافہ ہو جاتا کہ اس کی چمک کبھی ماند نہ پڑتی۔ لالہ راج کی یہ بڑی خواہش تھی کہ لاہور میں بھولو پہلوان کی کشتی احمد بخش پسر حسین بخش ملتانیہ کے بجائے ان کیساتھ ہوتی کہ وہ اس کے زیادہ اہل بھی تھے اور حقدار بھی۔ لالہ کو عمر بھر یہ خلش رہی کہ یورپ کے سفر کے لئے جب ان کا انتخاب ہوا تو ان کے استاد بسا پہلوان ستارئہ ہند نے محض اس وہم کے تحت نہ جانے دیا کہ ان کا شاگرد یورپ کی سحر انگیز فضائوں کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔

1936میں ریاست گوالیار کی نمائش میں لالہ راج پہلوان نے ایک لنگر سے یکے بعد دیگرے دو کشتیاں جیتیں اور دونوں میں مدِمقابل پہلوانوں کو آنکھ جھپکنے میں مار گرایا۔ ڈھنڈورچی نے ابھی پوری طرح ناموں کا اعلان بھی نہیں کیا تھا کہ لالہ راج پہلوان نے کشتی مار لی اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اکھاڑے میں کھڑے اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ کوئی اور جری پہلوان ان کے مقابلے میں آئے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑا تنومند ہندو دیوہیکل چوبہ ان سے لڑنے کے لئے آیا۔ جیسے ہی یہ چوبہ دیوہیکل پہلوان آیا وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے کے بجائے منہ کے بل لیٹنے لگا اور لالہ راج یہ دیکھتے ہی تیر کی تیزی کے ساتھ اس کی توند کے نیچے سے گزرے تو چوبہ پہلوان ہوا میں اڑا اور زمین پر چاروں شانے چت آ گرا۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ ہوا کیسے۔ بس پھر کیا تھا سارا دنگل تالیوں اور نعرہ ہائے تحسین سے گونج اٹھا اور لالہ ایک بار پھر کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنے خاص انداز میں مسکرانے لگے۔ مہاراجہ گوالیار نے لالہ کو رستمِ ریاست گوالیار کا خطاب دیا۔ یہ نہایت ہی المناک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے اکثر فنکار زندگی کے آخری ایام کسمپرسی میں بسر کرتے ہیں۔ جب تک ان کے جسم و جان میں تازگی اور توانائی ہوتی ہے وہ جانِ محفل ہوتے ہیں اور جیسے ہی تاب و توانائی ان کا ساتھ چھوڑتی ہے ان کے مداح بھی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ لالہ راج پہلوان جن پر حسرت اور کسمپرسی کا دور قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، مسلم لیگ لاہور کے چیف آرگنائزر مقرر ہوئے تھے۔

جب امرتسر جل رہا تھا تو لالہ راج پہلوان اور ان کی ٹیم امرتسر روانہ کی گئی جن کے ذمہ بھوکے پیاسے مہاجرین کا کھانا، پینا اور اُنہیں باحفاظت لاہور لانا اور رہائش کا انتظام کروانا شامل تھا۔ اس مسلسل جدوجہد میں گونگا پہلوان بالی والا رستمِ ہند کے اہلِ خانہ نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ قومی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باوجود اپنی بےقراری کا علاج نہیں کر سکے۔ شاید مہاجرین کی حالتِ زار نے اُنہیں اور بھی آزردہ خاطر کر دیا تھا کہ امرتسر میں مہاجرین کے کیمپ کے مسلسل محافظ و نگران رہ چکے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد لالہ کی پہلوانی کا دور ختم ہو چکا تھا، کسی قسم کی سرپرستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رستمِ زماں گاما پہلوان نے ان کی حالت دیکھ کر کچھ سبیل پیدا کرنا چاہی، گاما پہلوان کو شاید دوسرے فنکاروں کی صورت اس شکستہ آئینے میں نظر آتی ہو، وہ ایک انجمن تشکیل دینا چاہتے تھے جو پہلوانوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی کفالت کر سکے لیکن وہ خود طویل علالت اور آلامِ روزگار کا شکار ہو گئے۔

لوگوں نے لالہ کو حکومت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا لیکن یہ ان کی غیرت نے گوارہ نہیں کیا۔ انہوں نے ساڑھے چار سو سے زائد کشتیاں لڑیں اور بیشتر میں کامیابی حاصل کی۔ اطراف پنجاب میں لالہ راج پہلوان کے معرکے جن معروف پہلوانوں سے ہوئے ان میں سے کچھ نام یہ ہیں: کالا فراسیا پٹھہ منی رینی والا، رستمِ ہند لاہوریہ پھجی ٹونڈی شفیع مشین مین پٹھہ لگانا پہلوان رستمِ زماں، شریف امرتسری پٹھہ حیدر پہلوان رستمِ ہند شفیع پہلوان پسر نجارینی والا، رستمِ ہند شہاما پہلوان برادر حیدر پہلوان رستمِ ہند، احمد بخش ملتانیہ پسر حسن بخش ملتانیہ رستمِ ہند، معراج پہلوان سلطانی والا پسر سلطانی والا رستمِ ہند گوجرانوالہ کرم الٰہی خاں والا گوجرانوالہ۔ ان کے علاوہ کئی نامور خاندانوں کے ساتھ معرکے سر کئے۔

یہ لالہ راج پہلوان کا ایک مختصر سا تعارف ہے اور ہماری فنِ پہلوانی کی تاریخ میں صرف یہی ایک نام نہیں بلکہ اس میں پوری دنیا میں تہلکہ مچا دینے والے نام بھی موجود ہیں لیکن ان میں سے کسی کے نام پر نہ کوئی یادگار موجود ہے نہ کسی سڑک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے اور نہ کوئی عمارت ان سے منسوب ہے۔ یہ احسان فراموشی ہے۔ ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اس فن کی سرپرستی کرے بلکہ ماضی کے نامور پہلوانوں کی خدمات کا اعتراف عملی طور پر بھی کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے