افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے40 سال

افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کو40 سال گزرگئے، چار دہائیاں قبل افغانستان میں جس خونریزی اورجنگی تصادم کاآغازہواتھا ،اس میں صرف روسی افواج کی موجودگی میں 12لاکھ افرادمارے گئے، لیکن چارعشرے سال گزرجانے کے باوجود بھی افغانستان میں امن کاخواب شرمندہ تعبیرنہ ہوسکا،اسی طرح سویت یونین کی افواج کے انخلاءکو31سال گزرگئے، لیکن جس مقصدکےلئے وہ آئے تھے اوربعدازاں امریکہ آیاتھا وہ مقصدتاحال ممکن نہیں بنایاجاسکا۔

[pullquote]روسی افواج کب اورکیسے افغانستان میں داخل ہوئی تھی؟؟۔۔[/pullquote]

20دسمبر1979کو افغان حکام کی دعوت اوراندرونی خانہ جنگی کے باعث سویت یونین کی افواج روس میں داخل ہوئیں، اسوقت سویت یونین کی افواج کی تعداددس ہزار تھی ، جس کے پاس 70ٹینک،20ہیلی کاپٹراورمتعددتوپیں تھیں ، ابتدا میں روسی افواج نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپناقبضہ جمایا، تاہم روسی افواج کے مخالف افغانیوں نے گوریلاجنگ کاآغاز کیا، جو 1988تک جاری رہی۔

[pullquote]افغانستان کی جنگ میں کتنے لوگ مارے گئے؟؟۔۔[/pullquote]

روس کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئےاعداد و شمارکاحوالہ دیتے ہوئے، امریکہ کے موقرروزنامے نیویارک ٹائمزاپنی رپورٹ میں کہتاہے کہ افغانستان میں سویت یونین افواج کےخلاف تقریباًساڑھے آٹھ سال تک مزاحمت ہوتی رہی، اس پوری جنگ میں ایک لاکھ پندرہ ہزار سویت یونین کی افواج نے حصہ لیا، اس جنگ میں روس کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمارمیں کہاگیاہے کہ افغان جنگ کے دوران 13ہزار310روسی افواج مارے گئے،35ہزار478فوجی زخمی ہوئے 311روسی فوجیوں کاتاحال پتہ نہیں چلایاجاسکا،انہیں لاپتہ قرار دیاگیاہے۔امریکہ کی تحقیقی ادارے اٹلانٹس کی رپورٹ کے مطابق افغان روس جنگ میں13ہزارسے زائد روسی افواج کے مارے جانے کے علاوہ دس لاکھ عام شہری بھی مارے گئے، 90 ہزارمجاہدین روس کے خلاف لڑتے ہوئ جاں بحق ہوئے جب کہ ابتدائی دورمیں18ہزارافغان اہلکاربھی روس کے خلاف مزاحمت میں لقمہ اجل بن گئے، تاہم امریکی تحقیقاتی ادارے بروکس کے مطابق افغانستان میں مارے جانےوالے روسی فوجیوں کی تعداد30ہزارسے زائد ہے ۔

[pullquote]سویت یونین کی افواج کے انخلاءکاآغازکب اورکیسے ہوا؟؟۔۔[/pullquote]

1979ءمیں افغانستان دااخل ہونےوالی سویت یونین افواج کے خلاف 14نومبر1980کواقوام متحدہ میں ایک قراردادمنظورہوئی اس قراردادکی حمایت میں104ووٹ آئے ،اسی سال اوآئی سی نے بھی اسلام آباد میں اجلاس طلب کیا اور افغانستان میں روسی مداخلت کی شدیدالفاظ میں مذمت کی گئی، 1982ءمیں جنیوامیں امریکہ ،سویت یونین ،افغان مجاہدین اورپاکستان کے مابین پہلی مرتبہ چارفریقی مذاکراتی عمل کاآغازہوا چھ سال تک یہ مذاکرات ہوتے رہے، جس کے بعد جنیوامیں چاروں فریقین کے مابین ایک معاہدہ طے پایاگیا،اس معاہدے پر پاکستان کی جانب سے وزیرمملکت برائے خارجہ زین نورانی ،کابل کے نمائندے عبدالبکیر،امریکی وزیرخارجہ جارج شیلڈراورسویت یونین کی وزیرخارجہ ایڈورڈزشیورڈزناڈزے نے دستخط کئے۔

جنیوامعاہدے کے تحت افغانستان سے روسی افواج کے انخلاءکاآغاز ہوگا ،کوئی بھی دوسرا ملک افغانستان میں مداخلت نہیں کرے گا، اقوام متحدہ اس پورے عمل کی نگرانی کرے گا ،افغانستان کے مہاجرین کی واپسی کویقینی بنایاجائے گا اور تمام فریقین اس معاہدے کی پابندی کریں گے۔ جنیوامعاہدے کے تحت پندرہ مئی1988ءکو روسی افواج کے انخلاءکاآغازہوا، جو9ماہ تک جاری رہنے کے بعد پندرہ فروری 1989ءکو پایہ تکمیل تک پہنچ گیا، افغان جنگ کے دوران پچاس لاکھ سے زائد افغانی بے گھرہوگئے، جن میں سے تقریباًتیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے پاکستان جب کہ باقی مہاجرین نے ایران ،ترکی اور دیگرممالک میں پناہ اختیار کی ۔

[pullquote]سویت افغان جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی داستان۔۔۔[/pullquote]

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے 1985کی رپورٹ کے مطابق اسوقت افغان خفیہ ایجنسی خادکے سربراہ ڈاکٹرنجیب اللہ نے تمام مخالفین سے چن چن کر بدلے لئے انہوں نے کابل کے دومختلف علاقوں شاش درک اور سدارت میں دوخفیہ مراکزقائم کئے تھے، جہاں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتاتھا، اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے کمیشن کی زیرنگرانی اپنی ایک رپورٹ مرتب کی اس رپور تاژکے سربراہ فلکس آرماکورانے19فروری1985 کواپنی رپورٹ اقوام متحدہ میں جمع کرائی، اس رپورٹ میں کہاگیاتھاکہ افغانستان کی پچاسی فیصدآبادی براہ راست یابلاواسطہ اس جنگ سے متاثرہوئی، مختلف واقعات کا ذکر اس رپور تاژمیں کیاگیاہے، بتایاگیاہے کہ افغانستان کے علاقہ غورمیں جب تین سوخاندان اپنے گھربارچھوڑکرپاکستان کی جانب آرہے تھے، تو روسی جنگی طیاروں نے ان کونشانہ بنایا اوران میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا، اسی طرح فصلوں کو آگ لگائی گئی، کیمیائی گیس کابھرپوراستعمال کیاگیا، پشاوراورکوئٹہ کے ہسپتالوں میں متعددزخمیوں کاجب طبی معائنہ کیاگیا، تو وہاں پر کیمیائی ہتھیاروں کااستعمال اورانکے اثرات ثابت ہوئے ،ہزاروں کی تعداد میں جانورو ں کومارا گیا ، جنگ کے آغاز پر جب افغان عوام اپنے گھربارچھوڑرہے تھے ، توپانی کے تالابوں اور ٹینکیوں میں زہرڈالاگیا ، جس سے سینکڑوں افرادجاں بحق یامتاثرہوئے ۔

[pullquote]افغانستان کے تعلیم کاشعبہ ان آٹھ سالہ جنگ کے دوران کیسے متاثرہوا؟؟۔۔[/pullquote]

محقق ڈاکٹرنفیس الرحمن نے افغان انٹیلی جنس ان اگزائل کی 1984کی رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ1978ءمیں روسی افواج کی مداخلت سے قبل کابل یونیورسٹی میں 800اساتذہ اور عملہ تعینات تھا، جنگی حالات کے بعد 45اساتذہ مارے گئے، 550 نے مغربی ممالک میں پناہ لی، 25 پروفیسرز آئے اور چاراساتذہ نے مختلف جنگی گروپوں میں شمولیت اختیار کی، جن میں سے تین بعدازاں مارے گئے، ڈاکٹر نفیس الرحمن کابل یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کاخصوصی طو رپر ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کے تیرہ میں سے چار پی ایچ ڈی اساتذہ تھے، چھ ایم اے اور پانچ نے گریجویشن کی تھی، جن میں سے چھ اساتذہ غائب ہوئے،اسی طرح کابل میڈیکل کالج میں80پروفیسر اورلیکچررزتعینات تھے، جن میں سے آٹھ کوماراگیا اور پینتالیس نے مہاجرین کی حیثیت سے دیگرممالک میں رہائش اختیار کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے