منٹو کہتے ہیں کہ اب میں عورت کی چھاتیوں کو چھاتیاں نہ کہوں تو کیا کہوں! منٹو سے اس لیے شروع کرنے کی جسارت کی ہے کہ تحریر میں جابجا ایسے الفاظ کا استعمال ہے جس کو ہم 18+ بھی کہتے ہیں، ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کے حقوق ہی الگ الگ نہیں ہیں انکی طرفہ نقطہ نظر اور منہ سے نکلنے والے الفاظ بھی متصادم ہیں۔
دونوں اصناف میں اللہ کریم نے کچھ خاص عضو رکھ کر تو الگ کر دیا ہے لیکن جسم کے خدو خال اور نشیب و فراز پر زبانوں سے نکلنے والے الفاظ بھی انتہائی اہم اور تشویشناک ہیں۔
پتہ نہیں ہم نے یہ بات کہاں سے سیکھ لی ہے کہ مرد کے عضو کی نمائش تو حرام اور بے غیرتی و کمینگی ہے جوکہ واقعی ہی ہے، جبکہ عورت کے پیچ و خم اور ابھار کی نمائش حسن و سکون اور نئے دور کی تہذیب ہے۔
اکثر خواتین نا صرف ایک معاشرتی رویے کی طرف توجہ دلاتی ہیں بلکہ وہ خود بھی وکٹم بن چکی ہیں جب بازار میں سر عام کسی نوجوان و مرد نے اپنے مردانہ اعضاء کو نمائش کہ خاطر آزاد چھوڑ کر راہ چلتی خواتین کو اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔۔ اب میں ایسے مردوں کی مردانگی پر یہاں لعنت نہیں بھیج سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس تحریر کو نہی پڑھے گا۔ لیکن بعض خواتین ایسی غیر اخلاقی حرکت کا مظاہرہ دیکھ چکی ہیں وہ ضرور تائید کریں گی اس گھٹیا حرکت کے بعد انھوں نے ببانگ دھل نہیں تو دل میں ضرور لغویات سے نوازا ہوگا۔
اب دوسرا رخ دیکھ لیجئے گا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں لکھنا شروع کروں ایک لائن یاد آ گئی ۔۔۔ کہتے ہیں کہ عورت کو خوش کرنا بہت ہی مشکل کام ہے مرد کا کیا ہے وہ تو عورت دیکھتے ہی خوش ہو جاتا ہے۔ شاید یہ بات مذاق میں کی گئی ہو لیکن کسی حد تک سچ ہی ہے۔ جی تو واپس آتے ہیں ۔ پہلے حصے میں ہر وہ مرد گالیوں اور نفرت کا مستحق قرار پایا جو اپنے اعضاء مخصوصہ کو بغرض نمائش عوامی مقامات پر عیاں کرتا ہے ۔ لیکن کیا یہ عمل صرف مرد ہی کر رہے ہیں یا پھر عورتیں بھی اس قسم کی حرکتیں کرتی نظر آتی ہیں؟
[pullquote]ہمارے معاشرے میں عورتیں 3 قسم سے خود کو نمایاں کرتی ہیں۔ [/pullquote]
ایک چست لباس پہننے والی خواتین ان کے لباس اس حد تک چست ہوتے ہیں کہ سب کچھ چھپے ہونے کے باوجود واضح ہوتا ہے اور مردوں کی نگاہ کو شہ دے رہا ہوتاہے کہ دیکھو بھائی دکھانے کیلئے ہی تو اس لباس کا انتخاب کیا ہے ۔
دوسری خواتین جو سلیو لیس یا ڈیپ نک سوٹ کا انتخاب کرتی ہیں یا پھر ساڑھی شارٹ بلاوز والی ہوتی ہے، مطلب جسم کی نمائش کیلئے کچھ خاص اعضاء کو چھپاتی نہیں ہیں، مگر انکو گالیاں نہیں پڑتیں ، مرد تو مرد ہوتے ہیں اور آنکھوں کی تسکین کیلئے ان جاذب نطر نظاروں کے انتظار میں ہوتے ہیں ۔ اور اگر کوئی مرد اسکو برا کہہ دے تو اس جہاں فانی کی خواتین کا ایک طبقہ اسکے خلاف یک زبان ہوکر اس پر مذہب کا ٹھپہ لگا دیتا ہے اور اسکی بات کو خواتین کی آزادی کیخلاف تصور کیا جاتا ہے ۔
تیسری خواتین میں دو اقسام ہیں ایک جو چست برقے پہنتی ہیں اور دوسری مغربی فیشن کی دلدادہ ان دونوں خواتین کو بھی بھلاکوئی کچھ کہہ کر تو دیکھتے۔
آئندہ چند دنوں میں دوبارہ سے عورت مارچ کی بد روح بے قابو ہو کر نکلے گی ۔۔ اور ملک کے طول و عرض میں آپکو ایسی ہی خواتین نظر آئیں گی جو مغرب سے ہدایت یافتہ ہیں اور نمود و نمائش کی قائل ہیں اور اگر کوئی مرد ان کیلئے لب کشائی کرنے کی غلطی کریگا تو مذہبی جنونی کی مہر اس پر ثبت کی جائیگی۔
معاشرہ سازی میں ہر کردار کی اپنی جگہ اور ضرورت ہوتی ہے ، کوشش کریں کہ اپنی اقدار میں رہ کر معاشرہ کو بہتر بنائیں نہ کہ گندگی اور عریانی کو نئی تہذیب سے تشبیہہ دیکر کر بگاڑ کوفروغ دیا جائے۔