زندہ رکھیں یا مرنے دیں؟

مہذب دنیا کی زندگی میں اخلاقیات کا کردار اہم ہے مگر اکثر و بیشتر ہمارا سامنا ایسے حالات سے ہوتا ہے جن میں زندگی اور اخلاقیات دونوں آمنے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر مذہب چونکہ اخلاقیات کا سب سے بڑا دعویدار رہا ہے، تو ایسے مواقع پر مذہب کی طرف بھی دیکھا جاتا ہے۔ کچھ حالات میں مذہب کی رہنمائی کام آ جاتی ہے مگر مہذب انسان کی تخلیق کردہ جدید دنیا میں ایسے مواقع کی بھی کمی نہیں جن کے بارے میں مذہب خاموش ہے۔ میں شاید معروضی تناظر میں اپنی بات واضح نہ کر پاؤں، اس لیے ایک دو واقعات لکھ کر اپنا سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔

کچھ دن پہلے ہمارے گاؤں کا ایک شخص، سہولت کے لیے اس کا نام زید رکھ لیتے ہیں، زید بیمار ہو گیا۔ زید طویل مدت سے تنہا رہتا تھا۔ مسجد میں اس کا قیام تھا۔ بیوی، بچے اور والدین نہیں تھے۔ زمین نہ جائیداد، مال نہ دولت، کل ملا کر گاؤں کے لوگ اور دور پار کے رشتہ دار تھے، جن کے سہارے اس کے شب و روز گزر رہے تھے۔ بہرحال زید بیمار ہوا، ابتدائی علاج گاؤں میں کیا گیا، افاقہ نہ ہوا تو میرے ماموں اسے راولپنڈی لائے۔ یہاں سے اسے کراچی بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ جہاں میرے ایک کزن انہیں اچھی ہسپتال لے کر گئے۔ ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا کہ فلاں بیماری ہے، جس کا علاج ممکن نہیں مگر کوشش کی جا سکتی ہے مگر افاقہ ہونے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ دو چار روز جو مریض کے پاس باقی بچے ہیں، ان میں اس کے پاس رہیں۔ وہی ہوا چار پانچ روز بعد زید فوت ہو گیا۔۔

ایک دوست نے بتایا کہ ان کی والدہ بیمار ہیں۔ دل کام نہیں کر رہا، گردے جواب دے چکے ہیں، برین ہیمرج کی وجہ سے میموری کام کرنا چھوڑ چکی ہے۔ یہاں تک کہ بات کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہے۔ والدہ سے پہلے والد جب بیمار تھے تو انہیں آخری دنوں میں آئی سی ڈی لگا دی گئی تھی۔ آئی سی ڈی ایک چھوٹی مشین کا نام ہے جو دل کی حرکت کو مانیٹر کرتی ہے اور اگر دل کی حرکت میں نشیب و فراز آئیں تو الیکٹرک شاک پیدا کر کے اسے درست کرنے میں مدد دیتی ہے۔ میری دوست کے والد کومہ میں تھے۔ کئی دن اسی حآلت میں رہے، آخر جب ان سے والد کی یہ حالت دیکھی نہ گئی تو ڈاکٹر سے کہہ کر مشین ہٹا دی گئی، چند ہی روز بعد ان کے والد فوت ہو گئے۔۔

سوال یہ ہے کہ مریض کی ایسی حالت میں میرا اخلاقی فریضہ کیا ہوتا ہے؟ کیا میں مریض کو مرنے دوں؟ یا اسے بچائے رکھوں؟ مرنے دوں تو اس کی موت کا ذمہ دار ہوں گا یا نہیں کیونکہ میرے علم میں ہوتا ہے کہ اگر کوشش کی جائے تو جیسی تیسی ہی سہی مگر مریض میں زندگی کی رمق باقی رہتی ہے۔ کیا مجھے اس رمق کو ختم کرنے کا حق حاصل ہے؟؟

اور اگر بچائے رکھوں تو جن تکلیفوں سے اس وقت مریض گزر رہا ہوتا ہے، ان کا ذمہ کس کے سر ہوتا ہے؟ اس طرح کے مریض اکثر بے ہوشی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اگر وہ ہوش میں رہیں تو کبھی کہہ دیتے ہیں کہ اس درد سے موت اچھی مگر اگر درد کم ہو جائے تو زندہ رہنے کی جدوجہد بھی کرتے ہیں۔۔

میں تو چھوٹا تھا مگر بڑے بھائی بتایا کرتے ہیں کہ دادی جب آخری دنوں میں بیمار تھیں تو آئے روز کے انجیکشنز کی تکلیف میں اکثر کہہ دیا کرتی تھیں کہ مجھے موت ہی کیوں نہیں آ جاتی۔ پھر جب تکلیف قابل برداشت ہوتی تو سب سے چھوٹے بیٹے کی شادی میں شریک ہونے کی آرزو کرتیں۔ پھر ہوا بھی ایسا ہی، ابو نے جلدی جلدی ہمارے چچا کی شادی کروائی، تو دادی شادی کے تیسرے ہی دن فوت ہو گئیں۔۔

خیر تو سوال یہ ہے کہ انسان کی ایسی کیفیات میں اخلاقی تعلیمات کیا ہیں؟ مریض کیا کرے؟ موت مانگے کہ جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے؟ یا زندہ رہ کر درد سہے؟ مریض کے لواحقین کیا کریں؟ زندہ رکھیں یا ہمدردی کا لحاظ کرتے ہوئے مرنے دیں؟

ان سوالوں پر بات کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم آئے روز ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو لٹ لٹا جاتے ہیں اپنے کسی پیارے کے علاج میں اپنے پاس پیسہ نہ ہو تو قرض لے کر علاج کی کوشش کرتے ہیں۔ اخلاقی و جذباتی پہلو سے زیادہ ان کے لیے اس طعنے سے بچنا اہم ہوتا ہے جو انہیں اڑوس پڑوس سے ملتا ہے کہ دیکھو تو اپنے پیارے کا علاج تک نہیں کروایا۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے